1431AH محرم

عظمت حسین پر ایک جنبش فکرونظر

انسان کی عقل و خرد, علم و دانش اور فکر و نظر ایک طائر شکستہ پر کی اس جنبش کی طرح ہے جسے وہ اپنی ساری طاقت صلاحیت اور تحقیق کو سمیٹ کر اپنی بلند ہمت اور اپنے بلند حوصلے کے ساتھ اپنے بازوؤں کو دے دیتا ہے۔

آج اقوام اپنے عروج اور اپنی ارتقائی منزلوں کو دیک کر اس مفریخت کرتی ہیں جب اس کے سیٹلائٹ چاند کی طرف جاتے ہیں جب اسکی میزائل چشم زدن میں فضاؤں کی بلندیوں سے گزرتے ہوئے اپنے نشانوں پر ٹھیک اترتے ہیں۔ یہ سب اس لئے کہ دوسری قومیں یا مقابل میں آنے کیلئے تیاری کریں اور دوسرے دل دہلانے  والے آتشیں ہتھیار ایجاد کریں جو کمزور قومیں ہیں وہ ڈریں ۔۔۔سہمی ہوئی حسرت و یاس سے صبح و شام کو دیکھتی رہی۔  دوسری جانب اسلام کی قبا اوڑھ کر جہالت کے اندھیروں سے دہشت گرد بے گناہ اور معصوم بندوں پر غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں وہ ایک جان دے کر سینکڑوں جان لینے کی قسم کھائے ہوئے ہزاروں یتیموں کو لاکھوں کی تعداد پر لیے جا رہے ہیں۔ بیوائیں سر پیٹ رہی ہیں مائیں کلیجہ پکڑے کسی گوشے میں سسکیاں بھر رہی ہیں۔ قیامت سے پہلے اس قیامت خیز دنیا کا منظر ہے جہاں لگتا ہے سورج نکلے گا اور عجب نہیں دوسرے لمحے میں سوانیزہ پر آجائے۔ جہاں شام ہوتی ہے  تو ایسا لگتا ہے وقت ایسا آسکتا ہے جب سور اسرافیل سے کوہ و دمن میں آگ لگ جائے۔

اس ہولناک منظر سے متاثر مگر بے خوف ایک انسان کا تصور سامنے آتا ہے جو ذکر الہی میں مصروف کہہ رہا ہے “الا بذکر اللہ تطمئن القلوب” سامنےخاک شفا ہے. سجدہ میں جا کر کہتا ہے “للہ الحمد وله شکر” اس کی عقل روشن ہوئی ہوگی. اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر غور و فکر کیا. اپنے وجود کی پناہ گاہ کی منزل کا متلاشی ہوا۔  کہتے ہیں جویندہ یا بندہ اس کو پناہگاہ ملی جو چار ستونوں پر قائم تھی۔ ذکر –  سجدہ – اطمینان اور شفاء۔ اس نے دیکھا ہر ستون پر نور کی تحریر جگمگا رہی تھی آنکھیں ملتا ہوا قریب جا کر دیکھا تو ہر ستون پر لکھا تھا “یا حسین”۔ 

ہم اتنا سمجھنے لیں کہ یہ دنیا۔ یہ کائنات بہت چھوٹی ہے اور امام حسین علیہ السلام اس سے بہت بڑے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آپ کی ذات عالمین پر چھائی ہوئی ہے۔ آئیے اس کا جو میں نے اپنے بیان میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ایک عقلی اور نقلی تجزیہ کریں جو نہایت اہم تو ہے لیکن اس کو چند سطور میں بیان کرنا پتھر میں نرم دھار بڑھانے کے مصداق ہے۔ پھر بھی کوشش شرط ہے۔ 

کون جانتا تھا کہ ایک ذرہ کے جگر میں منفجر ہونے کی اتنی بڑی قوت ہے جو بستیوں کو نیست و نابود کر سکتی ہے کون جانتا ہے کہ تینکوں میں کہیں کوئی ایسا سلیقہ بھی موجود ہو سکتا ہے جیسے اشاروں پر بجلیاں رقص کرتی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ بڑے بڑے صاحبان قلم اور صاحبان نظر اور صاحب علم امام حسین کی تعریف و تمجید کو احاطہ تحریر میں لانے کے لیے تنکوں کی حیثیت رکھتے ہوں۔ تاہم تائید غیبی سے توقیر و تنویر، تحریر میں اتنی جان  پیدا ہونا ناممکن نہیں ہے جو  اسراء الہی کے پردے ہٹا دے اور کشف و کرامات کی جھلک نظر آنے لگے امام حسین علیہ السلام کی مکہ کی طرف روانگی سے قبل مدینہ کی زندگی کو ایک گوشہ نشینی کی زندگی تھی تاہم جہاں بانی اور جہاں بینی دونوں اعتبار سے آثار و برکات آپ کے وجود اقدس سے ظاہر ہو رہے تھے۔ آپ کے عارفین محبین دور دور سے درس اخلاق اور زندگی کے سلیقہ کو اس انداز میں ڈھالنے کے لیے جو غیر مفتوح، مستحکم اور انہیں کے چلن کے مطابق ہو سیکھنے کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ بحارالانوار میں واقعہ ملتا ہے کہ خطیف یا کسی اور علاقه سے تین افراد جو امام حسین علیہ السلام کی معرفت رکھتے تھے اور آپ کی ذات سے ابھرتے ہوئے نور اور اعجاز سے کبھی کبھی دریائے حیرت میں غوطہ زن رہتے تھے حاضر ہوئے۔ اور انہوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کا وجود آپ کے نانا رسول زمن کی طرح ایسا ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم آپ سے سوال کریں کہ آپ کیا ہیں۔ آپ کی خلقت کیا ہے تاکہ ہماری استعجابی کیفیت میں کچھ کسب ضیا ہوجائے اور ہماری معرفت یقین کے مدارج کو طے کر سکے۔ راقم الحروف نے من و عن وہی لفظیں استعمال نہیں کیا ہے بلکہ تزئین بیان میں اپنی عبارت کا اسلوب رکھا ہے اور اسی کا سہارا لیا ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں تاب و توانائی نہیں ہے کہ ہماری خلقت کی حقیقت کو باریک سے باریک اور ہلکی سے ہلکی کرن کو دیکھنے کی تاب لا سکو۔ سمندر کا کوئی حصہ دریا میں سیلاب پیدا کر سکتا ہے۔ دریا تالاب کے ظرف کو توڑ دیتا ہے۔ تمہارا ظرف میری حقیقت خلقت پر نظر ڈالنے کی صلاحیت سے معذور ہے تم لوگ چند لمحوں تک سورج کو نہیں دیکھ سکتے تو پھر میری خلقت کو کیا دیکھ سکو گے؟ اصرار پر اصرار کرتے ہوئے افراد نے ایک شخص جو بہت متدین اور مضبوط قلب کا تھا اس کو منتخب کیا اور عرض کیا کہ آپ کم سے کم اس شخص کو اپنی خلقت کے نور کی ایک جھلک دکھا دیں۔ امام حسین علیہ السلام نے ایک سوئی کی نوک کے برابر اس کی آنکھ کے گوشہ کا پردہ ہٹا دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص بیٹھا تھا کھڑا ہوگیا اسکے اعصاب ٹوٹنے لگے اس کے دماغ کے کنارے شکستہ ہونے لگے اور وہ لرزہ براندام تھا کچھ دنوں تک اسکی یہی کیفیت رہی اور اس کے بعد امام علیہ السلام کی کر مفرمائی سے شفا کی صورت نکلی۔ امام حسین امام حسین علیہ السلام ہیں۔ 

   (بحار الانوار جلد ۴۴ صفحہ) ۸۴ 

یہ بھی ایک مسلمہ ہے کہ خالق اپنی مخلوق کو بہت چاہتا ہے جس خالق نے اس دنیا کو خلق کیا اس کو لو لو والمرجان سے سجایا ہے۔ اسکی زینت کیلئے اپنی نعمتوں کو تمام و کمال تک پہنچایا اور اسکے لیے اپنی اشرف مخلوق کی ہدایت کے لئے اپنے معصوم انبیاء کو بھیجا اور آخر میں ختم المرسلین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعو مبعوث فرمایا اسی کا یہ قول آپ کی ساری شریعت پر حاوی ہے کہ “میرا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں” یعنی جب تک نام حسین زندہ ہے شریعت محمدی کو کوئی آنچ نہیں آ سکتی اور یہ شریعت حسینیت کی پاسبانی اور پاسداری میں ہے. اسکے حدود میں ہر سرکش کو سرنگوں ہو کے رہے ہیں وہ حسین جو مرسل اعظم کی سیرت و شریعت کا ایسا پاسبان ہو اُسکیلۓ قدرت نے خلقت آدم سے لے کر آج تک کتنا اہتمام کیا ہوگا۔ آئیے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر دیکھیں۔ ہم اسے ماضی سے لے کر حال تک صرف تین ادوار میں منقسم کر کے یہ کاوش کریں گے کہ امام حسین علیہ السلام کا اسم گرامی کا کا ورد کہاں کہاں ہو رہا ہے اور کیسے کیسے نجات ملتی ہے۔ ہم نے صرف تین ادوار کا ذکر کیا ہے موضوعیت کی تفصیل کے لحاظ جو بڑے وسیع کینو اس پر پھیلا ہوا ہے۔ 

پہلا دور : وہ دور ہے جسے انسانی تہذیب کو پیش رفتی کا دور نہیں کہتے ہیں۔ یہ وہ دور ہے جو خلقت آدم سے پہلے کا دور ہے۔ وہ دور دراز ماضی کا دور جسکے لیے ایک دو نہیں بلکہ کئی ملین سالوں پہلے کا دور کہا جاتا ہے اور اس میں کون اور کیسے جاندار رہتے تھے اس سلسلے میں جانوروں کے پیروں کے نشان یا دایناسورس کے انڈے دستیاب ہوتے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ڈائناسور کے پنجوں کے نشان کی خبر اخبار میں شائع ہوئی تھی جسکے لیے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کئی ملین سالوں پرانے  جانوروں کے ہیں۔ 

یہ دو انسانی تہذیب کی پیش رفتی کے لیے تاریک دور سمجھا جاتا ہے جہاں اولاد آدم کی چہل پہل کے آثار نظر نہیں آتے۔ لہذا ہم اس دور سے گزر کر دوسرے دور کی نشاندہی کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ 

دوسرا دور : آدم ثانی نوح نبی اللہ کا دور ہے قارئین کو معلوم ہے کہ آپ کی نبوت کی مدت تقریباً نو سو برس ہے اور اس دور میں آپ کی تبلیغات نبوت کے تحت ساری بستی کے لوگ آپ سے مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ قصاص میں ملتا ہے کہ آپ پر لوگ اتنے پتھر مارتے تھے کہ آپ کا بدن اس میں چھپ جاتا تھا۔ خداوند جبّار و قہار نے اس قوم پر عذاب نازل کیا اس وقت کی پوری دنیا غرق آب ہوئی سوائے 80 افراد کے جو  طوفان سے بچنے کے لیے آپ کی بنائی ہوئی کشتی میں آگئے۔ یہی نہیں بلکہ وہ جانور بھی طوفان کی زد میں نہیں آئے جو ان افراد کے ساتھ حضرت نوح کی دعوت پر کشتی پر سوار تھے۔ ان اسّی افراد سے یہ دنیا پھر آباد ہوئی۔ پھر دنیا سرسبزوشاداب ہوئی۔ پھر بہار نو خیمہ زن ہوئی۔ پھر زمین نے قوت نامیہ کا اثر دکھایا۔ پھر دیواروں پر بیل بوئے اپنے گلہائے نورنگ سے مست خوشبو لے کر چڑھنے لگیں۔ لیکن ڈوبنے والوں کی عذابی تکلیف کو تو وہی جانیں جن پر یہ وقت پڑا تھا کہ حلق میں دم رک رک کر آیا سانسیں ٹوٹیں۔ جگر پھٹ رہے تھے، دل کی ایک ایک رگ ٹوٹ رہی تھی، ناک اور منہ سے صرف پانی بہہ رہا تھا ہچکیاں لے رہے تھے، ہر موج کے طمانچے منہ پر پڑھ رہے تھے، مشکل سے ایک ایک کا دم نکلا ہوگا۔ یہ حشر ہوا تھا اس دنیا

اول: ایک کتاب کچھ زمانے پہلے شائع ہوئی تھی ، ‘علی یا ایلیا’ اس میں تحریر تھا کہ نوح کی کشتی کے کچھ ٹکڑے ملے ہیں جن پر کچھ اسماء نقش ہیں۔ ماہرین لسانیات نے شبّیر اور شبّر کے نام کی تشخیص کی ہے۔ ہمارے علماء بھی پڑھتے ہیں کہ جب حضرت نوح پنجتن کے نام کی کیلیں جڑ رہے تھے تو آخری کیل جو حسین علیہ السلام کے نام کی تھی جب اسے اٹھایاتو حضرت نوح بے ساخته گریہ کر رہے تھے اور اسوقت تک مصروف گر یہ رہے جب تک اس کیل کو کشتی کی لکڑیوں میں پیوست نہیں کر لیا۔ 

دوم : مرسل اعظم رسول اکرم کی زبان سے نکلی ہوئی یہ حدیث سارے عالم کے مسلمانوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ میرے اہل بیت ہدایت کے چراغ اور مانند کشتی نوح کے ہیں مصباح الہداء اور سفینه التجات جو اسکی پناہ میں آیا نجات پائی اور جس نے تخلف کیا غرق آب ہوا۔ رسالتمآب کے اہل بیت کے دفتر پر خامس آل عبا کی مہر تا قیامت دمکتی رہے گی۔ 

سوم : قلت اور کثرت : صرف ۸۰ (اسّی) آدمیوں کے جو کشتی نوح پر سوار تھے انہیں نیک بندوں سے یہ دنیا بھر آباد ہوئی۔ کربلا کا سانحہ سامنے رکھئے۔ کربلا میں اسلام کی کشتی پر بہتّر یا ایک سو سے کچھ زیادہ شہداء نے سیلاب کفر و نفاق سے جن کی تعداد کم سے کم تیس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ تیس ہزار تھی۔ طلوع آفتاب سے لے کر عصر عاشور تک مقابلہ کیا اور کشتی اسلام کو بچا کر نکال لے گئے۔ چتگری نے کیا خوب کہا ہے۔ ڈوب کر پار ہو گیا اسلام۔ آپ کیا جانیں یہ کربلا کیا ہے؟ اب جو غرق آب ہوئے معذب ہوئے ، ڈوب کر موت کے چنگل میں کے ان کی بھی مثال سن لیجئے۔ روایت میں ملتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنے قافلے کے ساتھ جب کے ساتھ جب قادسیہ سے آگے بڑھے تو ایک منزل پر آپ کو خبر ملی کہ عبد الله ابن حر  جعفی بھی قریب ہے اپنے عملہ کے ساتھ آیا ہوا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے  عبد الله ابن حر  جعفی جن کے پاس بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا: عبداللہ میر کی نصرت کیلئے میرے ہمراہ ہو جا، عبد الله ابن حر  جعفی اہل بیت کا چاہنے والا ضرور تھا وہ آپ کی عظمت و جلال کا قائل تھا لیکن سینے میں ایک کمزور دل رکھتا تھا۔ اس نے جواب میں کیا۔ ” مولا ! میں مسلم کی لاش کو کوفے میں سڑکوں اور گلیوں میں گھسیٹا جا رہا ہے دیکھ کر آرہا ہوں۔ مولا ! مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ابن زیاد کے مقابلہ میں کھٹرا ره سکوں۔ اتنا ضرور ہے کہ میرا گھوڑا عرب کا وہ گھوڑا ہے جسکا شاید کوئی ثانی نہیں۔ آپ اسے لے لیجئے ، میرے پاس جتنے ہتھیار ہیں وہ سب لے لیجئے لیکن میں آپ کے ہمراہ نہیں جاسکتا، مجھ میں اتنی ہمت اور صلاحیت نہیں ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: “میں نانا کے دین کی پاسبانی کیلئے جارہا ہوں امر بالمعروف و نهی از منکر میرا مقصد سفر ہے۔ میری راہ میں میری نصرت کرنے والے شہید ہونگے۔ مجھے تیرے اس گھوڑے اور ہتھیار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر جب یہ کہہ کر پلٹنے لگے تو آپ پھر ایک مرتبہ مڑے اور فرمایا ”ہاں عبد اللہ بن حر جعفی ! ایک بات میر کی خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لے ورنہ پچھتائے گا، ابن حر جعفی نے کہا۔ مولا ! وہ کون سی بات ہے تو آپ نے فرمایا تو اتنی دور چلا جا جہاں میری آواز استغاثہ تیرے کان تک نہ پہنچے اور نہ چو میری صدائے استغاثہ کو سنیں گے اور میری نصرت کی طرف قدم نہیں اٹھائیں گے تین سال کے اندر اندر ہلاک ہو جائیں گے۔ گویا امام حسین علیہ السلام کی صدائے استغاثه کشتی نوح کی طرح نجات اور غرق یابی کا ایک محکم فیصلہ تھا جس کا عمل درآمد بعد قتل حسین علیہ السلام شروع ہو کر تین سال میں مکمل ہو گیا۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ کسی اور شمارہ میں بس اتنا سمجھ لیجئے کہ جس طرح وہی لوگ بچے جو کشتی نوح میں سوار تھے باقی سب عذاب الہی سے ہلاک ہوئے۔ اسی طرح وہی لوگ تین سال کے بعد تک جانبر رہے جن کے کانوں میں امام حسین کی آواز استغاثہ نہ پہونچی۔ حضرت نوح کے بعد حضرت ابراہیم کا دور آتا ہے جس کے لئے ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے 

عجیب ساده و رنگیں ہے داستان حرم

نہایت جسکی حسین ابتدا ہیں اسماعیل

تیسرا دور ابراہیم خلیل اللہ کا ہے

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے نمرود بادشاہ تھا۔ بابل اور کلید ان دو بڑے شہر تھے ان دونوں شہروں میں مدنیت کی کافی ترویج  ہوچکی تھی، صنم صنم خانے آباد تھے اس دور میں کوئی متنفس موحد نہیں تھا۔ اصنام کی نئی نئی صورتیں تراش کر بت کدوں میں رکھ دئے گئے تھے۔ ان کے گرد افکار اور عقائد کے نت نئے قصے جنم لے رہے تھے۔ رسم و رواج انہی اصنام سے منسلک تھے۔ نمرود و خدا اور خالق اور موت اور حیات کا دینے والا کہلایا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان اصنام  کو توڑنے والے پہلے بت شکن کہلائے۔ لیکن امام حسین علیہ السلام وہ ہیں جنھوں نے برسوں سے فکر و نظر اور عقید توں میں بنے ہوئے صنم خانوں کو مسمار کردیا۔ بہت دنوں پہلے برطانیہ کے کسی رسالے میں وہ تختی جو مٹی کی بنی ہوئی تھی اور جس پر تصویر کے ساتھ حروف بھی کندہ تھے چھپی تھی اور وہ تختی ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کی تھی جسے ابراہیم علیہ السلام نے اس زمانے کے لوگوں سے بنوا کر علم کی تقریر کے ساتھ تحریر کی داغ بیل ڈالی۔ ماہر لسانیات کا قول ہے کہ اسی زمانے میں علم کی توسیع ہوئی (و اللہ اعلم بالصواب) ہو سکتا ہے اس زمانہ کے لوگوں کی ظرفیت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ طریقہ اختیار کیا ہو۔ 

تفصیلات سے درگزر کرتے ہوئے ہمیں صرف اتنا دیکھنا ہے کہ اس دور میں امام حسین علیہ السلام کا تعارف اور اہتمام کس انداز میں حضرت ابراہیم کی حیات میں نقطہ پر کار تبلیغ نبوت و خلیلیۃ و امامت بن کر ہزاروں سال پر محیط انسانیت کی تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا اور آنے والے مستقبل میں جس کا سرا ظہور امام مہدی علیہ السلام سے ملتا ہے سلسلہ وار قائم ہے۔ اس تحریر کی تجدید قرآن کی تفسیر میں ملتی ہے۔ 

دین حنیف ابراہیم علیہ السلام (۱)  بت شکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اوائل عمر یعنی بچپنے کی زندگی پہاڑوں کی پناہ گاہوں میں مخفی طور پر ہوئی۔ آپ کا قد و قامت تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ حضرت ابراہیم اکیلے اکیلے تھے لیے اس وقت جب عالم جوانی میں آئے جیسے للکارا تھا وہ بادشاہ تھا جس کا نام نمرود تھا وہ خود کو خدا کہتا تھا، تفصیل ممکن نہیں مگر ایک واقعہ نقل کرتا چلوں جب حضرت ابراہیم مصر سے واپس آئے تو جناب ہاجرہ ساتھ میں تھیں۔ نمرود کے دربار میں حاضر کیئے گئے۔  نمرود نے  جب جناب ہاجرہ کی طرف جب دونوں ہاتھ بڑھائے تو اس کے ہاتھ شل ہو گئے۔ 

موازنہ 

پلٹ کر شام آجائیے۔ جب یزید نے کہا میں علی کی بیٹی سے بالمشافہ گفتگو کروں گا انہیں میرے سامنے لایا جائے۔ ایک سیاہ فام کنیز فضہ نے اپنے قبیلے والوں کو للکارا۔ غیرت دلائی زریں کمر بستہ غلام جو یزید کے پیچھے کھڑے تھے تلوار سونت کر سامنے آگئے اور پھر جب بیبی نے خطبہ دیا ہے تو لوگ کہتے تھے کیا علی زندہ ہو گئے ہیں۔ یہ کون ان کے لہجے میں یزیدیت کی  دھجیاں اڑا رہا ہے۔ 

(۲) جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اقدام سے تبلیغ نبوّت سے دوسرے شہر کلیدان کے لوگوں میں ایک ہلچل۔ ایک کھل بلی مچ گئی اور قبیلے اور خانوادے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرفداری میں کھڑے ہونے لگے اور ابراہیم علیہ السلام کی زبان بولنے لگے تھے۔ اسی طرح جب مصعب بن عمیر مرسل اعظم کے سفیر مکہ سے مدینہ آتے ہیں تو بنی خزرج اور بنی اوس کے قبیلوں کی پرانی دشمنی ختم ہوئی اور اسلام قبول کرکے مصعب کی قیادت میں دونوں قبیلوں نے ایک ساتھ نماز قائم کی۔ یہ مدینہ تھا جہاں امام حسین کا بچپن اور جوانی گزری جہاں آپ کی ولادت پر عرش سے لوحِ فاطمہ نازل ہوئی۔ جہاں فطرس کو بال و پر ملے، جہاں نانا نے اپنے فرزند کے لیے کہا لو یاد کرو یہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔

(۳) اور عرفات اور منی کی سر زمین حضرت ابراہیم کی زبان میں کچھ بول رہی ہے۔  قربانی دیتے ہیں دنبے ذبح ہوتے ہیں، شیطان پر کنکری مارتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرفات میں قیام کیا تھا حاجی اسکی تاسی کرتے ہیں۔ 

غور سے سنیے۔ سنی علماء حضرت امام حسین علیہ السلام کے اس قیام کے بارے میں وسیلہ بنا کر دعا کرتے ہیں اے باری تعالیٰ امام حسین علیہ السلام کے واسطے سے ہماری دعا قبول فرما۔ اور مینا کی سر زمین اس واقعہ کو بیان کر رہی ہے جب نواز رسول نے کربلا میں اپنے ہاتھوں پر اپنے جوان بیٹے کی لاش کو اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا 

هذا قربان تقبل منا

ہم تو صرف اتنا کہہ کر آگے بڑھیں گے تو گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ کی ایک ایک سانس وراثت حسین علیہ السلام میں آئی ہے. امام حسین علیہ السلام امام حسین علیہ السلام ہیں.

قیام حسینی اور امربمعروف

سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام اور امر بمعروف کے سلسلے میں گفتگو کرنے سے پہلے اس بات پر غور کریں حضرت امام حسین علیہ السلام نے جس دین کی زندگی اور بقاء کے لئے قیام فرمایا اس کا بنیادی مقصد کیا تھا۔ اور خداوند عالم نے انبیاء اور مرسلین کو کس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا؟ حضرت امام حسین علیہ السلام وارث انبیاء ہیں ان کی روش اور ان کے قیام کا مقصد انبیاء علیہم السلام کی روش اور مقصد سے ہر گز جدا نہیں ہے۔ مضمون کی محدودیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مختصر آعرض کرینگے۔ قرآن کریم نے بعثت انبیاء کے مقاصد اس طرح بیان فرمائیں۔ 

ا۔ دعوت توحید

 قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد اس طرح بیان کیا گیا ہے (سورہ نحل، آیت ۳۶) اور ہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا۔ (جس کا پیغام یہ تھا) کہ بس خدا کی عبادت کرو اور غیر خدائی طاقتوں سے دوری اختیار کرو۔ اسی طرح سورہ اعراف آیت ۵۹ میں جناب نوح کی زبانی اور آیت نمبر ۶۵ میں جناب ہود کی زبانی آیت نمبر ۷۳ میں جناب صالح کی زبانی آیت نمبر ۸۵ میں جناب شعیب کی زبانی اور اسی طرح سورہ مبارک ہود کی آیت۔ ۵۰٫۶۱٫۸۴، میں انھیں انبیاء کی زبانی یہ پیغامِ بیان کیا گیا ہے۔ 

یَا قَوْمِ اعْبُدُواللہَ مَا لَکُمْ مِنْ اِلٰہ ٍغَیْرُہٗ

اے میری قوم بس خدائے واحد کی عبادت کرو خدا کے علاوہ کوئی اور تمہارا معبود نہیں ہے۔ 

اس طرح انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور تعلیم کا بنیادی نقطہ توحید کی دعوت تھی وہ بھی اس انداز کے ساتھ کہ خدائے واحد کے اقرار کے ساتھ تمام دوسری طاغوتی طاقتوں کا انکار۔ انسان صرف اور صرف اپنے خالق الله کا بندہ ہے اور اس کی زندگی میں بس اللہ کی حکمرانی ہے دنیا کی ہر بڑی طاقت خدا کے سامنے ہیچ ہے۔ خدا کے علاوہ کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا ہے۔ اس کے سامنے بس خدا کی خوشنودی ہے وہ خدا کے مقابلے میں کسی کی بھی خوشنودی کو نظر میں نہیں لاتا ہے۔ وہ مخلوقات کی خوشنودی صرف اس صورت میں حاصل کرتا ہے جب اس میں خدا کی خوشنودی پوشیدہ ہو۔ توحید صرف زبانی اقرار نہیں ہے۔ بلکہ یہ دل کی گہرائیوں سے خدائے واحد کے سامنے تسلیم ہو جانا ہے اور اپنے سارے امور خدا کے سپرد کر دینا ہے خدا کو اپنے تمام اعمال بلکہ اپنے تمام افکار و خیالات میں خدا کو حاضر و ناظر جاننا ہے۔ بندہ ہر وقت یہ احساس رکھتا ہے کہ خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔ الم یعلم يا الله یری 

جس کی بنا پر وہ گناہوں سے پر ہیز کرتا ہے۔ سرکشی وہ کرتا ہے جو خود کو آزاد تصور کر تا ہے اور گناہ وہ کرتا ہے جو خدا کو حاضر و ناظر نہیں جانتا ہے۔ 

۲-  رفع اختلاف   

انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا دوسرا مقصد قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔ 

كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً۬ وَٲحِدَةً۬ فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّـۧنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ بِٱلۡحَقِّ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِ

 (سورہ بقرہ ، آیت ۲۱۳)

 لوگ ایک امت تھے خدا وند عالم نے انبیاء بھیجے جو لوگوں کو نعمتوں کی بشارت دیتے تھے اور عذاب خدا سے ڈراتے تھے اور ان کے ہمراہ حق کی کتاب نازل کی تا کہ لوگوں کے اختلافات  میں فیصلہ کریں۔ 

وَمَآ أَنزَلۡنَا عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَـٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِ‌ۙ وَهُدً۬ى وَرَحۡمَةً۬ لِّقَوۡمٍ۬ يُؤۡمِنُونَ 

(سوره نحل، آیت ۶۴)

 اور ہم نےآپ پر کتاب صرف اس لئے نازل فرمائی کہ آپ لوگوں کے اختلافات میں ان کی راہنمائی کریں یہ کتاب صاحبان ایمان کے لئے ہدایت ورحمت ہے۔ 

ان آیتوں کی روشنی میں انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد لوگوں کو متحد کرنا ہے اور آپسی اختلافات کو دور کرنا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم کو لوگوں کا اتحاد کس قدر پسندہے اختلاف و انتشار سے کسی قدر نفرت ہے یہ ہماری بد بختی ہے کہ ہم نے اختلاف ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے۔ 

انبیاء علیہم السلام تمام اختلافات کو دور فرماتے تھے چاہے وہ فکر و نظر کے اختلافات ہوں چاہے زمین و جائیداد کے اختلافات ہوں چاہے وہ دو شریک کے باہمی معاملات ہوں چاہے عقیدہ و عمل کے اختلافات ہوں مختصر یہ کہ انسانی زندگی میں جتنے بھی اختلافات ہو سکتے ہیں انبیاء علیہم السلام ہر ایک کو حل کر سکتے ہیں۔ 

قیام عدل ۳ –

انبیاء علیہم السلام کے بعثت کا ایک مقصد عدل و انصاف قائم کرنا ہے ارشاد خداوندی ہے۔ 

لَقَدۡ أَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِٱلۡبَيِّنَـٰتِ وَأَنزَلۡنَا مَعَهُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡمِيزَانَ لِيَقُومَ ٱلنَّاسُ بِٱلۡقِسۡطِ

 (سور و تدبیر ، آیت ۲۵) 

یقینا ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان بھی نازل کی تا کہ لوگ عدل و انصاف کی زندگی بسر کریں۔

آج دنیاکی تمام تباہی اور بربادی اس بناء پر ہے کہ عدل و انصاف نہیں ہے۔ کسی کے پاس دولت اس قدر ہے کہ اس کا کوئی حساب و کتاب نہیں ہے اور کوئی اس قدر محتاج و فقیر ہے کہ اس کو ایک لقمہ روٹی کبھی میسر نہیں ہے طاقت اور قدرت کی بھی یہی صورت حال ہے کہ کچھ لوگ اور ممالک یہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی تمام طاقت و قدرت ان کے پاس رہے اور دنیا کے تمام لوگ ان کے دست نگر رہیں ان کے محتاج رہیں ان کے سامنے تسلیم رہیں غریب اور کمزور اپنی زندگی کا فیصلہ خود نہ کریں بلکہ یہ طاقتیں ان غریبوں کی تقدیر معین کریں اور ان کی قسمت سے کھیلتے رہیں۔ انبیاء علیہم السلام نے انھیں طاغوتی اور سرکش طاقتوں کے مقابلہ میں عدل و انصاف کا پرچم بلند کیا جناب موسی علیہ السلام نے اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت یعنی اس وقت کے سُپر پاور فرعون کے سامنے عدل و انصاف کا پرچم بلند کیا اور اس سے کہا۔ اگر تم کفر و شرک ظلم و استبداد ، نا انصافی اور نا برابری کا راستہ چھوڑ کر توحید و ایمان عدل و انصاف، مساوات کا راستہ اختیار کرتے ہو تو مجھے تمہاری سلطنت اور بادشاہت سے کوئی سروکار نہیں ہے تمہیں مبارک ہو لیکن تم ظلم و ستم کا راستہ چھوڑ دو تا کہ دنیا میں عدل قائم ہو اور تمام لوگ امن و امان کے ساتھ چین کی زندگی بسر کر سکیں۔

عدل و انصاف صرف اجتماعی زندگی میں نہیں بلکہ انفرادی زندگی کے ہر ایک مرحلہ میں ہے کیونکہ عدل کے معنی کسی چیز کو اس کی مناسب جگہ پر رکھنا جسکی ضد ظلم ہے جس کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کو وہاں رکھنا جو اس کی جگہ نہیں ہے۔ اس بناپر فکر و نظر اور عقیدہ کی منزل میں توحید عدل ہے۔ شرک ظلم ہے۔ ایمان عدل ہے کفر ظلم ہے۔ عمل کی منزل میں خدا کی اطاعت عدل ہے نافرمانی ظلم ہے۔ صلحہ  رحم عدل ہے قطع رحم ظلم ہے۔ والدین کی اطاعت عدل ہے ان کی طرف سے لا پرواہی ظلم ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے انسانی زندگی کے ہر مرحلہ میں عدل و انصاف قائم کرنا چاہتے تھے اور خداوند عالم نے اسی قیام عدل کے لئے انھیں مبعوث فرمایا تھا۔

۴۔ دین اسلام عالمی اور ابدی دین

خدا صرف ایک خطہ یا ایک خاص جماعت و فرقہ کا خدا نہیں ہے بلکہ وہ تو تمام عالم ارض و سماء کا خدا ہے پوری کائنات اپنی تمام تر و سعتوں کے ساتھ اس کی مخلوق ہے اور ہر لمحہ اس کی عنایتوں کی محتاج ہے خدا سب کا رب ہے۔ اور اس نے سب کے لئے ہدایت کے اسباب فراہم کئے ہیں سورہ الیل کی آیت ۱۲ میں ارشاد ہوتا ہے۔

 إِنَّ عَلَيۡنَا لَلۡهُدَىٰہدایت کے اسباب فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۵ میں ارشاد ہوتا ہے شَہۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدً۬ى لِّلنَّاسِ… ماه مبارک رمضان جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ یہ تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہے۔ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے سورہ سبا آیت ۲۸ میں ارشاد ہوا۔ 

وَمَآ أَرۡسَلۡنَـٰكَ إِلَّا ڪَآفَّةً۬ لِّلنَّاسِ بَشِيرً۬ا وَنَذِيرً۬ا وَلَـٰكِنَّ أَڪۡثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعۡلَمُونَ 

 اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اس کو سمجھتے نہیں ہیں۔

اسی طرح خدا وند عالم نے قرآن کریم کو ساری دنیا کے لئے ہدایت اور حضرت پیغمبر اکرم اس ایپ کو ساری دنیا کے لئے عادی و شیر و نذیر بناکر بھیجا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ دین مقد کن اسلام کسی خاص علاقہ اور فرقہ و جماعت سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک عالی اور ابدی دین ہے۔ أن الدين عند الله الاسلام دین تو پس خدا کے نزدیک اسلام ہے۔ جب خداوند عالم نے دین مقد کی اسلام کو سلامی دین قرار دیا ہے اور یہ بھی ارشاد فرمایا۔  

وَمَن يَبۡتَغِ غَيۡرَ ٱلۡإِسۡلَـٰمِ دِينً۬ا فَلَن يُقۡبَلَ مِنۡهُ وَهُوَ فِى ٱلۡأَخِرَةِ مِنَ ٱلۡخَـٰسِرِينَ 

(سورہ آل عمران، آیت ۸۵)

 جو ون مقدس اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کرے گا وہ ہر گز قبول نہیں کیا جائیگا اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کرے گا وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔ البذا اتمام حجت کے لئے خداوند متعال نے ایسے افراد کو پیدا کیا جو اس پیام الہی کی حفاظت کریں اور اس کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں ایک ایک تک پہونچائیں تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ دین اسلام کی تعلیمات ہم تک نہیں پہونچی اور اس بناپر ہم گمراہ ہوئے۔ ہے ایک طرف دوسری طرف شیطان اور اس کا گروہ اس دین اسلام کا شدید مخالف ہے۔ وہ ہدایت نہیں طلالت چاہتا ہے۔ امن کے بجائے فساد چاہتا ہے۔ توحید کے بجائے شرک چاہتا ہے۔ ایمان کے بجائے تقات چاہتا ہے اس نے یہ تم کھائی ہے کہ ہر ایک کو گمراہ کر کے چھوڑے گا کسی ایک کو جنت میں جانے نہیں دینا چاہتا ہے۔

 قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغۡوِيَنَّهُمۡ أَجۡمَعِينَ 

 (سوره ص، آیت ۸۲)

 خدایا تیری عزت کی قسم ضرور بالضرور سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔ 

لیکن یہ کبھی اعتراف کیا۔ باد مثه المخلصين (سورہ ، آیت ۸۳ )ہاں تیرے قلم بندوں پر میرا کوئی قابو نہیں ہے۔ اس طرح شیطان نے ابتداء سے خدا کے مخلص بندوں کے مقابلے میں اپنی شکست کا اعتراف کر لیا ہے۔ خدا کے مخلص بندے کبھی بھی شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئینگے اور وہ بھی گمراہ نہیں ہوں گے شیطان کے علاوہ انسان کا نفس اماره. إن النفس لأمارة بالسؤ (سورہ یوسف، آیت ۵۳) یقینا بہت زیادہ برائی کا حکم دیتا ہے۔

 ۵- اسلام انسانیت کی سعادت کا ضامن 

خداوند عالم نے دین اسلام کو ہر ایک فرد بشر کی ہدایت و سعادت کے لئے نازل کیا۔ اور انسانوں کی ہد ایت و سعادت کی خاطر انبیاء     و رسلین جھیے۔ دوسری طرف شیطان اور اس کا گروہ انسانوں کی برایت و سعادت کا دشمن ہے۔ ہر موڑ پر گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔ اس بناء پر ایسے گروہ کا وجود ضروری ہے جو لوگوں کو ہدایت و سعادت کی دعوت دیں اور گرانی و بد بختی سے رد کیں۔ جس طرح انسان کے خون میں سرخ و سفید سل (cells ) ہو تے ہیں ایک بدن کے لئے مفید اجزاء کو جذب کرتا ہے اور دوسرا نقصان دہ عناصر اور جراثیم کو دن میں داخل ہونے نہیں دیتا۔ اور جب تک یہ توازن بر قرار رہتا ہے انسان مستند رہتا ہے۔ اور جب یہ توازن بگڑ جاتا ہے تو صحت متاثر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح انسانی سماج کی اصلاح اور اس کی سعادت و کامرانی کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو معاشرے کے ایک ایک فرد کو مفید باتوں (معروف) کا حکم دیتے رہیں اور نقصان دہ چیزوں (منکر) سے روکتے رہیں۔ دین مقدس اسلام نے انسانی زندگی کے اس حیائی عنصر کو امر بمعروف اور نہی از منکر سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : 

كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنڪَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱلللہ

 (سورہ آل عمران، آیت ۱۰۹) 

تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی خیر و فلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہو تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔ 

ان آیتوں سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ مسلمان اس وقت تک بہترین امت ہیں جب تک وہ امر بمعروف اور نہی از منکر کے فریضہ کو انجام دیتے رہتے ہیں اور ان کی کامیابی کی ضمانت اسی صورت میں ہے کہ جب وہ اس فریضہ الہی کو انجام دیتے رہیں۔ جس طرح امر بمعروف اور نہی از منکر کی انجام دہی ان کو کامیابی کی ضمانت اور ان کو بہترین امت قرار دیتا ہے۔ وہیں اس عظیم فریضہ سے غفلت اور لاپرواہی ان کو ذلیل و خوار کر دے گی۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : 

امر بمعروف اور نہی از منکر ایک عظیم فریضہ ہے جس کی بنا پر بقیہ تمام واجبات قائم اور باقی رہتے ہیں راستے پرامن رہتے ہیں تجارت کا کاروبار حلال رہتا ہے۔ ظلم کی روک تھام ہوتی ہے زمین آباد ہوتی ہے دشمنوں سے انتقام اور بدلہ لیا جاتا ہے۔ اس کی روشنی میں بقیہ تمام امور اپنی مسیح ڈگر پر چلتے ہیں۔ 

 (وسائل الشیہ کتاب امر بمعروف باب احادیث ۳۹۵) 

اس بناپر امر بمعروف اور نہی از منکر انسانی معاشرہ کی وہ شہ رگ ہے جس سے سارا نظام درست رہتا ہے۔ اگر اس میں خلل واقع ہو گیا تو پھر سارا نظام در هم و بر هم ہو جاتا ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں 

امر بمعروف اور نہی از منکر کی بنا پر شریعت قائم رہتی ہے اور خدا کے قوانین اجراء ہوتے ہیں۔ 

(غرر الحاکم، ح ۶۸۱۷، میزان الحکمہ ج ۸, ص ۳۶۹۸) 

امر بمعروف اور نہی از منکر کی اہمیت اس حدیث سے اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا : 

امر بمعروف اور نہی از منکر کے مقابلے میں تمام نیک اعمال یہاں تک کہ خدا کی راہ میں جہاد بھی ایسا ہے جیسے سمندر کے مقابلے میں ایک چلو پانی 

( نہج البلاغه حکمت ۳۷۴)  

۶-  اولیاء خدا کی زمہ داری 

مذکورہ حدیثوں سے امر بمعروف کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ خدا وند عالم نے جہاں اپنے اولیاء کو بلند ترین درجات مرحمت فرمائے ہیں وہیں ان کی ذمہ داریاں بھی دوسرے لوگوں سے مختلف ہیں۔ حنین کے موقع پر ایک شخص نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ عراق واپس چلے جائیں اور ہم شام واپس چلے جاتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : 

میں جانتا ہوں تم یہ بات محبت میں کہہ رہے ہو۔ اللہ تبارک تعالی اس بات سے راضی نہیں ہے کہ زمین پر اس کی نافرمانی ہوتی رہے۔ لوگ گناه انجام دیتے رہیں اور اس کے اولیاء خاموش تماشائی بنے رہیں امر بمعروف اور نہی از منکر انجام نہ دیں۔ اس لئے میرے لئے جنگ کرنا جہنم کی زنجیروں میں جکڑنے سے زیادہ آسان ہے۔

 (میزان الحکمہ حدیث نمبر ۱۲۶۹۱) 

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دینا اور اپنے اپنے کام میں لگ جانا خد ا کو پسند نہیں ہے۔ خداوند عالم نے اپنے اولیاء کے جہاں درجات بلند کیئے ہیں وہیں ان کی یہ ذمہ داری بھی قرار دی ہے وہ احکام خداوندی کی مخالفت کے تعلق سے خاموش تماشائی نہیں رہیں گے بلکہ وہ گناہ روکیں گے چاہے اس کے لئے ان کو جنگ کیوں نہ  پڑے۔ 

حضرت امام حسین علینا نے اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے : 

کسی مومن کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ خدا کی نافرمانیوں کو دیکھ کر اپنی آنکھیں پھیر لے یہاں تک کہ وہ حالات کو تبدیل نہ کرلے۔ 

تنبیه الخواطر ، ج ۲، ص ۱۷۹؛ میزان الحکمت، ح  ۱۲۷۰۰) 

خداوند عالم نے مومن کی یہ ذمہ داری قرار دی ہے گناہوں کے تعلق سے غیر جانبدارنہ رہے۔ اور آنکھیں جھکا کر راہ سے گزر نہ جائے بلکہ مومن کی ذمہ داری ہے کہ حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ 

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : 

اگر کوئی برائی اور گناہ کو دیکھے۔ اس کو روک سکتا ہو اور نہ روکے تو وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ نظر او نمد عام کی نافرمانی کی جائے جو شخص یہ پسند کرے گا کہ خدا کی نافرمانی کی جائے۔ اس نے خدا سے دشمنی مول لی ہے۔ 

 (تفسیر عیاشی، ج ۱، ص ۳۶۰ میزان الحکمت اح ۱۲۷۰۱)

 اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک مومن کی شان یہ ہے کہ نہ خود گناہ کرے اور نہ گناہ کرنے دے گناہ پسند کرنا خداوند عالم سے دشمنی مول لینا ہے۔ جب ایک مومن کی یہ شان ہے تو اولیاء الٰہی اور مقربان بارگاہ خداوندی کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : 

یقینا امر بمعروف اور نہی از منکر انبیاء کا راستہ اور نیکو کاروں کا طریقہ ہے۔ 

(کافی، ج ۵، ص ۵۶) 

 امام حسین علیہ السلام وارث انبیاء ۷-

زیارت وارثہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو جناب آدم، جناب نوح،  جناب ابراهیم، جناب موسیٰ، جناب عیسیٰ، حضرت محمد مصطفي، حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا وارث قرار دیتے ہوئے سلام کرتے ہیں امام حسین علیہ السلام صرف نسلی طور پر ان انبیاء کے وارث نہیں ہیں بلکہ وہ ان کے دین، ان کی شریعت ان کی تعلیمات کے وارث ہیں اس بناء پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی زمہ داریوں میں توحید کی طرف دعوت دیا باہمی اختلافات کو دور کرتا اور دنیا میں خاص کر انسانی معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کرنا شامل ہے۔ 

وہ نہ توحید کے پیغام کو ختم ہوتے دیکھ سکتے تھے، نہ ہی امت کے اختلافات کو برداشت کر سکتے تھے اور نہ ہی ظلم و جور پر نہ ہی ظلم و جور پر خاموش رہ سکتے تھے۔ جن پاک و پاکیزه آغوش میں انھوں نے تربیت پائی تھی اور جو مقدس و مطہر خون ان کی رگوں میں دوڑ رہا تھا اس کا تقاضا تھا کہ وہ یزید اور اس کے خاندان کے ایجاد کردہ حالات پر خاموش نہ رہیں۔ وہ خدا کی زمین پر خدا کی نافرمانی کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ امر بمعروف اور نہی از منکر کا عظیم فریضہ انہیں ایک ایسے قیام کی دعوت دے رہا تھا جس کے بعد پیر توحید کے پیغام پر کوئی آنچ نہ آسکے اور عدل و انصاف کا سورج ہے نور نہ ہو سکے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے حالات اس طرح بیان فرمائے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے قیام کا سبب بھی بیان فرمایا ہے۔ 

بصرہ والوں کے نام خط میں تحریر فرمایا : 

اما بعد۔ یقینا خدا وند عالم نے مریم کو اپنی تمام معلومات میں نتې کیا تموت کے قر یہ ان کو بزرگی و عزت عطا قربانی اپنی رسالت و پیام کے لئے انہیں منتخب کیا پھر خدا نے ان کو اپنے پاس بلالیا ۔ انہوں نے خدا کے بندوں کو نصیحت کی اور جو کچھ ان پر نازل کیا گیا تھا وہ پیغام پہنچا دیا۔ خدا کا درود و سلام ہو ان پر۔ اور ہم ان کے اہل ہیں ان کے اولیاء ہیں ان کے اوصیاء ہیں ان کے وارث ہیں ان کے منصب کے ہم سب سے زیادہ حقدار ہیں لوگوں نے ہمارے اوپر دوسروں کو ترجیح دی ہم نے صبر کیا اور اختلاف کو ناپسند کیا امن و امان کو دوست رکھا۔ جب کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس منصب کے ہم ہی سزاوار ہیں اور اس کو واپس لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔ میں تم لوگوں کے پاس اس خط کے ذریعہ اپنا نمائندہ بھیج رہا ہوں۔ اور میں تم لوگوں کو خدا کی کتاب اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ کیونکہ سنت رسول کو مٹا دیا گیا ہے اور بد عنوں کو زندہ کر دیا گیا ہے۔ تم میری بات کو سنو اور میرے علم کی اطاعت کرو۔ میں تم کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کروں گا۔ والسلام علیکم و رحمة الله 

(مقتل الحسین، مقرم، ص ۱۵۹) 

اس خط میں امام حسین علیہ السلام نے خود کو منصب ہدایت کا حقدار قرار دیتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ہم نے اپنے حق خلافت کے غصب ہونے پر اس بنا پر صبر کیا کہ ہم امت میں اختلافات بر پا کرنا نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی امن و امان کو درهم و برہم کرنا چاہتے تھے۔ پھر حالات کا تذکرہ اس طرح فرمایا۔ سنت رسول کو مٹا دیا گیا ہے اور بد عتوں کو زندہ کیا گیا ہے یعنی اسلامی تعلیمات مٹائی جارہی ہیں اور جاہلیت کے رسم و رواج کو دوباره زنده کیا جا رہا ہے۔ جب راستہ میں حر کے لشکر کا سامنا ہوا۔ اس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام نے حر کے سپاہیوں کو اس طرح مخاطب کیا۔ 

اے لوگو! حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا 

: جو شخص ایسے ظالم و جابر حکمراں کو دیکھے جو حرام غد اکو حلال کر رہا ہوں۔ سنت رسول کی مخالفت کر رہا ہو بندوں کے ساتھ گناه و سرکشی کا بر باد کر رہا ہو اور کوئی اس کے خلاف نہ اقدام کرے اور نہ کوئی آواز اٹھائے تو خدا کے لئے سزاوار ہے ان کو ان کی جگہ پر پہونچا دے۔ (لین جہنم میں داخل کر دے) اور یقینا ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت پر کمر باندھ لی اور رحمان کی مخالفت کر رہے ہیں فساد پھیلا رہے ہیں احكام و حدود خداوندی کو معطل کر دیا ہے اپنی مرضی سے بہت اموال خرچ کر رہے ہیں۔ حرام خداوندی کو حلال کر رہے ہیں اور اس کے حلال کو حرام کر رہے ہیں۔ میں دوسروں سے زیادہ حق رکھتا ہوں ۔ 

 (کامل، ج ۳، ص ۲۸۰:طبری، ج ۴، ص ۳۰۰: قیام حسین، قزوینی، ص ۹۱) 

حضرت رسول خدا سے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان فرما کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا : 

ظالم و جابر حکمرانوں اور احکام خداوندی کو بدلنے والوں کے خلاف آواز اٹھانا اقدام کرنا قیام کرنا سنت رسول ہے حکم خداہے۔ 

اس کے بعد اس زمانے کے حالات کا ذکر کیا حر کے سپاہیوں کی خاموشی امام حسین علیہ السلام کے بیان کی تصدیق تھی۔ یعنی سب یہ اعتراف کر رہے تھے کہ اسلامی تعلیمات منائی جارہی ہیں دین خدا برباد کیا جارہا ہے۔ آخر میں یہ فرما کر میں دوسروں سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ یعنی ان حالات کو تبدیل کرنا ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف قیام کرنا میری ذمہ داری ہے یعنی میرا یہ قیام شخصی و ذاتی دشمنی کی بناپر نہیں ہے بلکہ یہ میری شرعی ذمہ داری ہے اس وقت خدا و رسول کا یہی مطالبہ ہے۔

بصرہ والوں کو جو آپ نے آ گھی دی ہے وہ قیام کے آغاز میں ہے اور حر کے لشکر سے گفتگو دوران سفر ہے۔ اور اب کر بلا جو اس عالمی اور ابد کی قیام کا آخری پڑاؤ ہے۔ وہاں بھی امام حسین علیہ السلام نے اس انداز میں خطاب فرمایا۔ یہ روز عاشور کی بات ہے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے امام حسین علیہ السلام یزید کی فوج سے اس طرح مخاطب ہوئے ہیں : 

اما بعد۔ اس وقت جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ سب تم لوگوں کے سامنے ہے دنیا بدل گئی ہے حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ نیکیاں ختم ہو گئی ہیں اور اگر باقی بھی ہیں تو بس اتنی جتنا برتن خالی کرنے کے بعد ذرا سا پانی رہ جاتا ہے وہ بھی ساڈے ہوئے چارہ کی طرح زندگی بہت پست ہوگئی ہے۔ کیا تم لوگ نہیں دیکھ رہے ہو کہ دین پر عمل نہیں کیا جارہا ہے اور شہ باطل سے کنارہ کشی اختیار کی جارہی ہے۔ 

اس وقت مومن کو خدا سے ملاقات کی تمنا کرنا چاہیے میرے نزدیک موت اس سعادت و کامیابی ہے اور ظالم کے ساتھ زندگی بسر کرنا اس ذلت ورسوائی ہے۔ 

(مقتل الحسین، محسن امین، ص ۹۰) 

یہاں بھی امام حسین علیہ السلام نے اس حقیقت کی طرف سب کو متوجہ کیا ہے اس وقت حالات اس قدر بدل گئے ہیں کہ معروف منکر ہو گیا ہے اور منکر کو معروف کا لباس پہنا دیا گیا ہے جو لوگ خد اور رسول پر ایمان رکھتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے اس وقت خاموش نہ رہیں بلکہ انھیں اور قیام کر ہیں۔ 

۸-  امام کی زمہ داری

 امام حسین علینا نے جب کوفہ والوں کے خطوط کے جواب میں جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کو اپنا نما نثر د اور معتبر خاص بنا کر کوفہ روانہ کیا۔ اس وقت  خط تحریر فرمایا اس میں خداوند عالم کے معین کر دہ امام وقت کی ذمہ داریوں کو اس طرح بیان فرمایا : 

خدا کی قسم امام نویسی کتاب خداوندی کے مطابق عمل کرنے والا عدل و انصاف قائم کرنے والا ہے دین خدا کے مطابق عمل کرنے والا خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے والا ہے۔ 

(مقتل الحسین، محسن امین، ص ۳۳ قیام حسینی قزوی ، ص ۴۶) 

امام حسین علیہ السلام نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے قرآنی احکام سنت رسول اور تعلیمات اسلامی کی حفّاظت عدل و انصاف کا قیام خدا کے متعین کر وہ ایام کی ذمہ داری ہے۔ یہیں سے یہ بھی واضح ہو جاتا۔ جو لوگوں کا منتخب کردہ ہوتا ہے وہ کیسا ہوتا ہے۔ معاشرہ کی یہ ساری تباہیاں اور تعلیمات اسلامی کی بربادی کی اسی انتخاب کا نتیجہ ہے۔ 

اعلان قيام ۹-

جس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام مدینہ منورہ سے نکل رہے تھے اس وقت انھونے  نے اپنے قیام کا مقصد اور قیام کا طرز و انداز اسی وقت واضح کر دیا تھا۔ اس سے یہ واضح ہو جائیگا دین مقدس اسلام میں امر بمعروف اور نہی از منکر کس قدر اہم ہے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کرتے ہوئے ہمیں اس مقصد کو نظر میں رکھنا چاہئے اور اپنی عزاداری سے اس مقصد کو زندہ رکھنا چاہئے نہ کہ بھولا دینا چاہئے۔ فرماتے ہیں۔ 

میرے قیام کا مقصد نہ شر اور نہ تکبّر نہ فساد ہے اور یہ ظلم۔ میں صرف اور صرف اپنے جید صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں میں امر بمعروف اور نہی از منکر کر نا چاہتا ہوں۔ یہاں تک قیام کا سبب اور مقصد بیان فرمایا۔ اس قیام میں طرز و انداز کیا ہوگا وہ اس طرح واضح فرمایا :

میں اپنے جد اور اپنے والد علی بن ابی طالب کی سیرت و روش پر چلنا چاہتا ہوں۔ جو حق کے ساتھ میری باتوں کا انکار کرے گا میں صبر کروں گا یہاں تک کہ خدا کے ساتھ میرے اور اس قوم کے در میان فیصلہ کر دے وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ 

(مقتل خوارزمی، ج 1، ص ۸۸) 

قیام کا مقصد امر بمعروف اور نہی از منکر ہے۔ قیام کا انداز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی مرتضی ان کی سیرت ہے۔ میری روش خلفاء کی روش سے بالکل مختلف ہوگی میں جس کا وارث ہوں اس کے راستے پر چلوں گا دوسروں سے مجھے کیا سروکار۔ اگر ان کی ہی روش اختیار کرنا ہوتی تو اس قیام کی ضرورت کیا تھی۔ 

۱۰۔ آخری فیصلہ اور قیام 

جب امام حسین علیہ السلام ہر طرح سے لوگوں کو سمجھا چکے ہر انداز سے حقیقت کو واضح کر چکے ۔ اگر تم مسلمان ہو خدا اور رسول و قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو تم کس طرح دین کی تبدیلی کو برداشت کر رہے ہو کیا تم سنت رسول کو مٹتے ہوئے نہیں دیکھ رہے ہو۔ کیا تمھارے سامنے بد عتیں اور زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج زندہ نہیں کئے جارہے ہیں ۔ تم لوگ اپنے قول کے پابند نہیں ہو اور نہ ہی اپنے وعدے کے وفادار ہو۔ تم لوگ ہر طرف سے مجھے گھیر کر لشکر و فوج کے اور یہ ظلم و ستم کے ذریعے۔ یہ چاہتے ہو میں اپنا راستہ تبد یل کر دوں۔ یا خاموش ہو جاؤں اور دین کو برباد ہوتے ہوئے دیکھتا رہوں۔ تو کان کھول کر سن لو۔ 

فرزند بدکار پسر فرزند بد کار (ابن زیاد) نے مجھے دو چیزوں کے در میان کھڑا کر دیا ہے۔ ایک موت اور دوسرے لذت ہم ہر گز ذلت قبول نہیں کرینگے۔ 

امام حسین علیہ السلام صاف صاف بیان فرمارہے ہیں۔ باطل کے سامنے خاموش رہنا ذلت ہے۔ زندہ رہنا کمال نہیں ہے عزت کے ساتھ زندہ رہنا کمال ہے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنا دو ٹوک فیصلہ اس انداز میں سب کو سنادیا۔ 

خدا اور اس کا رسول اور مومنین اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ میں ذلت برداشت کروں۔ اور پاک و پاکیزه آغوش۔ غیرت دار افراد، بزرگ مرتبہ اشخاص اس بات کی اجازت نہیں دیئے کہ ہم عزت کی موت پر پست لوگوں کی اطاعت کو ترجیح دیں۔ میں اس کم تعداد اور قلیل انصار کے ساتھ قیام کروں گا۔ 

حضرت امام حسین علیہ السلام نے شہادت قبول کر کے عزت کی موت کو گلے لگا کر اسلام اور اس کی تعلیمات کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔ علامہ اقبال نے اس بیان کی اپنے اشعار میں مکمل تصدیق فرمائی ہے۔ 

زنده و از قوت شبیری است

باطل آخر داغ حسرت میری است

تا قیامت قطع استبد کرد

موج خون او چمن ایجاد كرد

بہر حق در خاک و خوں غلطیده است

بس بنائی لا الہٰ گردیدہ است

تیغ بھر عزت دین است و بس

مقصد او حفظ آئین است و بس

نقش الا اللہ بار صحرا نوشت

سطر عنوان نجات ما نوشت

شرح زیارتِ ناحیہ

( المنتظر محرم الحرام خصوصی شماره ۱۴۳۰، پچھلے شمارے سے جاری) 

  کے علاوہ کوئی اور تمہارا معبود نہیں ہے۔ 

اَلسَّلَامُ عَلَی الْمُرَمَّلِ بِالدِّمَاءِ (۱۲)

سلام ہو اس پر جو خاک و خون میں غلطاں ہوا۔ 

زیارت ناحیہ کے اس فقرے میں ہم دو لفظوں پر گفتگو کرینگے المرمل اور دماء۔ 

(الف) المرمل: اس کا مادہ رمل ہے جس کے معنی ہیں ریت۔ یہاں مرمل باب تفعیل کا اسم مفعول ہے۔ جب اس کا ‘دماء’ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اس کے معنی ہوتے ہیں خاک و خون میں غلطاں۔ (یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ اگر مادہ کے میم کو مکسور کر دیں یعنی المرمل کے بجائے المرمل پڑھیں (میم کے نیچے زیر) تو اس کا مطلب بدل جائے گا اور لغوی معنی شیر کے ہوں گے۔ ظاہر ہے قرینہ سے یہ مطلب درست نہیں ہوگا اس سے صحیح اعراب لگانے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔) 

(ب): الدماء: یہ دم کی جمع ہے جس کے معنی ہیں خون۔ اس کی اصل دمی یا دمو تھی۔ لام کلمہ حذف کیا گیا۔ کبھی اس کو میم سے بدل کر دم مشدد بولتے ہیں۔ تثنیہ دمان، دمیان اور دمیان، ہیں اور جمع دماء ہے۔ 

مقتل ابی مخنف میں ہے: آپ نے دوبارہ سخت حملہ کیا اور دائیں بائیں بے شمار ملعونوں کو تہہ تیغ کیا۔ شمر لعین یہ منظر دیکھ کر عمر سعد ملعون کے پاس آیا اور کہنے لگا “ یہ جوان مرد اپنی اس جنگ میں ہم میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑے گا۔ عمر سعد نے کہا ، پھر کیا کرنا چاہے؟” شمر بولا لشکر کو تین دستوں میں بانٹ دو۔ ایک دستہ تیر اندازوں کا، دوسرا نیزه بردار اور تیسرا آگ اور پتھروں سے یکبارگی حملہ کریں۔ چنانچہ اس پر عمل کیا گیا۔ کچھ لوگ لشکر کے تیر چلا رہے تھے۔ کچھ نیزوں اور تلواروں سے ضر ہیں لگاتے تھے یہاں تک کہ حضرت کا جسم زخموں سے چور ہو گیا۔ خولی ملعون نے ایک تیر سے حضرت کے گلے کو نشانہ بنایا اور آپ سے زمین پر سنبھلا نہ گیا اور زمین پر گر پڑے۔ اس حالت میں کہ خون میں نہائے ہوئے تھے۔ 

(مقتل ابی مخنف، اردو ترجمہ ، ص۱۰۱، عباس بک ایجنسی) 

امام نے اپنے گلے سے تیر کو اپنے ایک ہاتھ سے کھینچ کر نکالا اور خون اپنے چلو میں لے کر اپنے چہرے اور ڈاڑھی پر لگایا اور فرمایا 

اسی حالت میں اپنے جد سے ملاقات کروں گا اور اس ظلم کی شکایت ان سے کروں گا۔ اس کے بعد آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ غشی سے ذرا فاقہ ہوا تو اٹھنے کی کوشش کی تاکہ دو بارہ چنگ کریں لیکن اٹھ نہ سکے۔ آپ نے سخت گریہ کرتے ہوئے فرمایا وا محمد! واعليا! وا حسنا! وا غربتاه! ہائے کوئی مددگار نہیں رہا؟ کیا میں اس مظلوی کی حالت میں قتل کیا جاؤں گا۔ جبکہ میرے جد محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں؟ کیا میں پیاسا قتل کیا جاؤں گا جبکہ میرے بابا علی مرتضی علیہ السّلام ہیں ؟ میری حرمت پامال ہو رہی ہے جبکہ میری مادر گرامی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں؟“ پھر دوبارہ غشی طاری ہو گئی، ایسی حالت میں تین گھنٹے بے حس و حرکت پڑے رہے۔ لشکریوں کو تعجب اور حیرت تھی۔ یہ نہ معلوم ہوتا تھا کہ آپ زندہ ہیں يا روح  پرواز کر گئی۔ ایک شخص جس کا تعلق کند و قبیلہ سے تھا قریب آیا اور آپ کے سر پر ایک ایسی سخت ضرب لگائی کہ سر شگافتہ ہو گیا۔ خون چہرہ اور ڈاڑھی پر بہنے لگا۔ سر سے عمامہ زمین پر گر گیا جو اس کندی نے اٹھالیا۔ 

(ماخذ سابق) 

اَلسَّلَامُ عَلَیالْمَہْتُوْکِالْخِبَآءِ (۱۳)

سلام ہو اس پر جس کے خیام کی بے حرمتی کی گئی۔ 

اس فقرے میں بھی گفتگو دو لفظوں پر ہو گی۔ المحتوک اور الخبا۔ 

((الف)المحتوک: ھتك سے بنا ہے جس کے معنی ہیں چاک کرنا یا خیچ کر پھاڑنا۔ ھتک الستر بے عزتی کے معنی میں مستعمل ہے۔ مثلا  هتك الله ثترالفاجر۔ اللہ تعالی نے بد کار کو رسوا اور ذلیل کیا ۔ مہتوك اس کا اسم مفعول ہے۔ 

((ب) الخباء: خبء سے بنا ہے۔ الخبء یا الخبیء سے مراد پوشیده یا چھپائی ہوئی شے ہے۔ اسی لئے عربی لغت میں نباتات کو خب الأرض بھی کہا جاتا ہے۔ الخباء کا مطلب ہے اونٹوں کی پشم يا أون یا بالوں کا خیمہ اور اس کا جمع أخبية ہے (افعله کے وزن پر)۔ اسی مادہ سے مرکب ہے الخبيئة (جمع خبایا) جس کے معنی ہیں پوشیدہ رکھی ہوئی چیز۔ لہٰذا بیٹی کو خباة بھی کہتے ہیں۔ بہر حال، زیارت ناحیہ کے اس فقرے میں امام زمانہ علیہ السلام نے خیام حسینی پر اشقیاء کے حملوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ سلام ہو اس پر کہ جس کے خیام کو لوٹا گیا اور عورتوں کو خیام کے باہر لایا گیا۔ کسی بھی غیرت دار مرد کے لئے یہ بات نا قابل برداشت ہے کہ اسکی ماں، بہن اور بیٹی پر کوئی نامحرم نظر ڈالے۔ چہ جائے امام وقت کے لئے جو سراپا غیرت ہیں۔ 

اَلسَّلَامُ عَلٰی خَامِسِ اَصْحَابِ الِکْسَاءِ (۱۴)

سلام ہو اہل کساءکی پانچویں شخصیت پر۔ 

خامس یعنی پانچواں ۔ اصحاب الكساء سے مراد پنجتن پاک۔ محمّد، علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہما السّلام) ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں وہ افراد جن کی طہارت اور پاکیزگی کا اعلان آیت مبارکہ تطہیر (سوري احزاب، آیت ۳۳) کے ذریعے ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کی شہرت اور آفاقیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس پر مزید بحث نہیں کریں گے کیونکہ یہ ہماری گفتگو کے دائرے کے باہر ہے۔ 

اَلسَّلَامُ عَلیٰغَرِیْبِ الْغُرَبَاءِ (۱۵)

سلام ہو سب سے بڑے پردسی پر۔ 

عربی زبان میں غریب اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے وطن سے دور ہو اور جس مقام پر وہاں وہ غیر مانوس ہو۔ غریب کا جمع غرباء ہے۔ امام زمان علیہ السلام نے اپنے جد بزرگوار امام حسین علیہ السلام کو اس لقب یعنی غریب الغرباء سے یاد کیا ہے۔ لیکن وہ ذات جو اپنے وطن سے دور کرب و بلا کے بیابان میں اشقیا میں چارو طرف سے گھرا ہوا تھا جو  اس کے خون کے پیاسے تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : 

مَا مِنْ مُؤْمِنٍ یَمُوْتُفِیْغُرْبَتِہٖ اِلَّا بَکَتْ عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃُرَحْمَۃًحَیْثُ قَلَّتْ بَوَاکِیْہِ وَ فُسِحَ لَہٗ فِیْقَبْرِہٖ بِنُوْرٍ یَتَلَأْلَأُ مِنْ حَیْثُ دُفِنَ اِلٰی مَسْقَطِ رَاسِہٖ۔

 ( بحارالانوار  ج ۶۷، ص ۲۰۰)

 کوئی مومن غربت کی حالت میں مرتا نہیں ہے مگر یہ کہ ملائکہ اس پر گریہ کرتے ہیں، ترس کھاتے ہوئے کیونکہ اس پر رونے والے بہت کم ہیں۔ اور اسکی قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے ایک شمکتے ہوئے نُور  اور اور روشنی سے گویا کہ اسے ان کے وطن اور پیدائش گاہ میں دفن کیا گیا ہو۔ 

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جب ایک عام مومن جسے غریب الوطنی کی حالت میں موت آئے، اسے یہ فضیلت عطا ہوتی ہے تو اس شخصیت کے بارے میں کیا کہا جائے جو رسول کا نواسا ہے علی کا لخت جگر ہے، فاطمہ زہرا علیھا السلام کا نور نظر ہے اور جنت کے تمام جوانوں کا سردار ہے، اس کی قبر کی کیا منزلت ہوگی ؟!! ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیرا ہو کہ یہ لقب “غریب الغرباء” توہے۔ یہ امام حسین علیہ السلام کے لئے کیو نکر اس زیارت میں استعمال ہوا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک لقب دو اماموں کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی آٹھویں امام کا اس میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ دونوں ہی اپنے زمانے کے غریب الغربا ء ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی مظلومی، عظمت اور بزرگی کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی اس بات کا منکر نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ تمام ازمان کے غریب الغرباء ہیں اور حضرت امام علی الرضا علیہ السلام اپنے زمانہ کے غریب الغرباء ہیں اور سید الشہداء کے بعد آپ سے بڑا غریب الوطن کوئی نہیں۔ 

  اَلسَّلَامُ عَلیٰشَہِیْدِالشُّہَدَاءِ (۱۶)

سلام ہو سرور شہیداں پر۔

اَلسَّلَامُ عَلیٰقَتِیْلِالْاَدْعِیَآءِ (۱۷)

لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوا۔ اس فقرے میں دو لفظوں کی وضاحت کی جائے گی۔ قتیل بر وزن فعیل در اصل اسم مفعول کے معنی میں ہے۔ یعنی مقتول، جسے قتل کیا گیا ہو۔ اور آدعیاء دعی کی جمع ہے یعنی وہ شخص جس کے نسب میں شبہ ہو وہ جو اپنے آپ کو غیر باپ کی طرف یا غیر قوم کی جانب منسوب کرے۔ یہی وہ لقب ہے جسے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے ابن زیاد کو دیا جب آپ سے بیعت کا تقاضا کیا گیا تو آپ نے فرمایا ”دعی بن د عی» یعنی وہ کہ جس کی ولدیت نامعلوم ہو اور جو خود ایسے ہی مجہول باپ کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھ سے بیعت کا تقاضا کیا ہے جس سے وہ مجھے ذلیل و رسوا کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ”حيهات منا الذلة” ذلت و رسوائی ہم سے بہت دور ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ذلت و رسوائی ہمارے قریب بھی نہیں آ سکتی۔ یقینا شرف و عزت تو پروردگار کے ہاتھ میں ہے اور جو اللہ کا ہوگا، اللہ تعالی اس کا ہو گا۔ 

مَنْ کَانَ لِلہِ کَانَ اللہُ لَہٗ۔

اور اہل بیت رسول علیھم السلام ان سے مقرب اور نزدیک اللہ سے کون ہو سکتا ہے؟ بہر حال، شریف زادوں اور ذلیلوں کے در میان جنگ ابتداء انسانیت سے چل رہی ہے اور تا ظہور امام زمانہ علیہ السلام چلتی رہے گی۔ 

(بقيه آینده، انشاء اللہ)

رفعت امام حسین علیہ السلام کی ایک جھلک

صراط الذین انعمت علیہم

 امام حسین علیہ السلام کی ذات سر چشمهائے نمتھائے آسمانی ہے۔ آپ کل بھی اور جب سے درود انبیا علیہم السلام کا سلسلہ انسانوں کی ہدایت کے لئے اس ارض خاکی پر شروع ہوا اس وقت سے از جانب خالق کائنات واسطہ اور ذریعہ تھے ان نعمتوں کے نزول کے جو آسمان سے زمین پر وارد ہوتی ہیں جب ہم دست دعا دراز کرتے ہیں اور خود کو بارگاہ باری تعالی کے حضور میں پاتے ہیں اور کہتے ہیں مجھے تیرے حسین کا واسطہ تو خدا کی رحمت جھومتی ہے اور شکر گزار بندوں پر اپنی بخششوں کے نہ ٹوٹنے والے سلسلے کو قائم رکھتا ہے اس سلسلہ نعمت کو وہ ذات جو لیس کمثلہ شی ہے نے اپنا امین حسین علیہ السلام کو قرار دیا ہے۔ لہذا ہم اس محسن انسانیت کی جب تک معرفت نہ حاصل کریں گے اس عظیم الشان ذات والا صفات کا کوئی حق ادا نہیں کر سکتے۔ آپ وہ ذمہ دار قسیم نعمتھائے الہی ہیں جن کے نام سے سکون قلب کی راہیں دکھائی دیتی ہے۔ جن کے ذکر سے حیات دنیوی میں امید کا چراغ ہمیشہ روشن اور تابندہ رہتا ہے، جسکے سجدہ گزاری سے ہمیں نہیں بلکہ ملائکہ کو بھی سجدہ کرنے کا سلیقہ ملتا ہے اور ہم اپنی پیشانیوں میں نور کی ایک لہر تیرتی ہوئی محسوس کرتے ہیں جس کی قربان گاہ سے اٹھتے ہوئے ریگزاروں سے اہنسا امن اور آشتی کے پیام و سلام آتے ہیں اور جس کی ذات کی معرفت سے اللہ تعالی کی وحدانیت، سمدیت، رحیمیت اور عدالت پر یقین حق الیقین کی طرف گامزران ہوتا ہے اور ارتقا کی اس منزل پر بھی وارد ہو سکتا ہے جہاں سے انکشافات سلسلہ شروع ہوتا ہے ہم امام حسین علیہ السلام کی معرفت کے لئے انھیں عناصر پر اپنی فکر کو مہمیز کرنے کی سعادت حاصل کریں گے یعنی اول ذکر، دویم سجده، سویم قربان گاو، چہارم یقین اور پنجم اطمینان اور سکون۔ 

ذکر

 بیان ورد زبان، نطق کا سلیقہ ، ادائیگی مطالب، قصد فهم، خیال اظہار، فکر، پچھتاوا و غیر ہم اتنے مفاہیم لفظ ذکر کے لئے اپنی عقلی بساط بھر لئے ہیں ورنہ اس کے معنی و مطالب کا میدان بہت وسیع ہے اسی غرض و غائت کے تحت یہ لفظ امام حسین علیہ السلام پر کیسے منطبق ہوتا ہے۔ اور ہمیں ذکر کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کی عظمت کی معرفت کیسے نصیب ہوسکتی ہے اس کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ 

ذکر حسین علیہ السلام

 ا۔ خود سازی کی کلید ہے۔ ۲۔ روحوں کی غذا۔ ۳۔ دل کی حیات ۴۔ جان کی خوراک ۵۔ دل کا نور ۶۔ صیقل قلب۔ ۷. دل کی شفاه – ۸. کلید انس ۹- نفاق سے امان ۱۰۔ محبت اا۔ عصمت ۱۲۔ اطمینان قلب ۱۳۔ شرح صدر 

انواع : 

پہلے آئیے ہم دیکھیں ذکر کا انسان سے کیا رابطہ ہے اور پھر یہ کیسے اور کس نوعیت سے امام حسین علیہ السلام پر منطبق ہوتا ہے۔ ذکر انسان کی زندگی کی وہ ریسمان ہے جس کے ہمیشہ متحرک اور مضبوط رہنے سے جو انسان زندہ ہے اس کی ضمانت رہتی ہے۔ انسان نہ صرف بیداری میں بلکہ نیند، غفلت یا غشی کے عالم میں بھی فکر و فہم کی بساط بھر کسی نہ کسی زاویے سے ذکر سے عہدہ برا نہیں ہے۔ خداوند متعال نے اس ذکر و فکر کو انسان کی ذات، شخصیت، کردار، چلن کو سنوارنے، سجانے، قوی اور مستحکم بنانے، جاذبیت اور جالبیت کے پیدا کرنے، معیار کے بلند کرنے، شرافت سے اشرفیت کی طرف جنبش کرنے ضلالت سے نکل کر ہدایت کی روشنی میں آنے۔ یعنی اپنی اصالت و مرکز خلقت وجود کی طرف پرواز کرنے کی بے پناہ صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اور اس سے کہیں زیادہ عظمت و برکت کی نعمتیں انسان کے لئے اس کے خالق کی طرف سے نازل ہوتی ہیں جہاں ذکر کی وادی شکر ہے اور اگر اس سے منحرف ہو کر اسکی مذموم وادی پر نظر کر پیئے تو آپ دیکھیں گے کہ اگر انسان نے اپنی اختیاری صلاحیتوں کے بل بوتے پر وادی شکر سے گریز کرتا ہوا وادئ کفر کی راہ پیمائی میں جو رواں دواں رہا تو سہی ذکر عذاب کا آئینہ بھی دکھاتا ہے جیسے جیسے ذہنی اور جسمانی قوت ختم ہونے لگتی ہے اور موت کے سکراتی لمحے قریب آنے لگتے ہیں تو لب ہلتے ہیں اور آہستہ بیانی سے جیسے اندر کا انسان خوف و ہراس کے منہ میں دبے ہوئے شکار کی طرح یاد کرتا ہے کہتا ہے کہ میں نے حجر بن عدی کو بے گناہ کیوں قتل کروادیا۔ مثال جز سے کل کی طرف جاتی ہے ( معاویہ عالم سکرات میں متعدد بار یہ کہتا تھا) یزید بال نوچ کر کہتا تھا میں نے حسین کو کیوں قتل کیا میرا کیا بگاڑا تھا۔ معاویہ بن یزید نے کہا جس تخت و تاج پر حسین فرزند رسول کے خون کی چھوٹیں ہوں ایسے تخت و تاج کو ٹھوکر مارتا ہوں۔ کیا شاندار ذکر اسکے لبوں پر آیا۔ مروان بن حکم نے اسے قتل کر دیا گویا وادی شکر کے ذکر کا شہزادہ معاویہ بن یزید نے بھی اسی شہر شام میں ہزاروں، لاکھوں بے شمار زائروں کو دعوت و ذکر و فکر حسنہ دے رہا ہے۔ اور مست خرابه کفر کے ذلیل ترین قاتل مروان بن حکم پر ہر منصف مزاج مورخ، محقق اور تاریخ کے سیر و سلوک کا راہی نفریں کر رہا ہے۔ جب ذکر کے دو حصوں کے تفریق ہوگئی ۔ تو ظاہر ہے دونوں کے در میان ایک حد فاصل ہے۔ یعنی ایک ذکر گمراہی ہے۔ ایک ذکر ہدایت ہے۔ انسان شاکی نہ رہے اس لئے اس کے خالق نے ذکر ہدایت کے ساتھ اپنے معصوم نمائندوں کو ان کے در میان بھیجا جو گمراہ کن اور حکومت پرستوں کے آئین رسم و رواج سے ٹکرائے اور سخت سے سخت مصائب سے دوچار ہوئے لیکن ذکر، ہدایت میں اپنی جنت کو قائم کرتے رہے تاکہ انسان جاگے اور اپنے شعور کی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے وجود کی ابدی زندگی عذاب الیم خداوندی سے بچا لے۔ اور اگر وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آیا تو اس کے لئے ذکر ہدایت کے دروازے اس پر بند ہو جاتے ہیں۔ خداوند متعال اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ اگر مہربان نہ ہوتا تو ایک وقت اور ایک جگہ کو متعین نہ فرماتا جہاں ضلالت کے ساتھ آدمی دنیا کی طاقت سمیٹ کر یزید بن معاویہ بن ابو سفیان حسین علیہ السلام کے جو منصب ہدایت پر فائز تھے جو معصوم تھے اللہ تعالی کے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دلبند تھے اور خاتون جنت کے جگر پارہ تھے کر بلا کے مقام پر آپ کے ایک چھوٹے سے قافلہ پر ایسی فوج کشی نہ کی ہوتی۔ اب جو ذکر حسین کرے گا وہ حرام و حلال میں فرق بھی کرے گا۔ پاکیزگی اور نجاست میں تمیز بھی کرے گا بد اخلاقی سے گریزاں اور اخلاق پر عمل بھی کرے گا۔ وہ عاشور کی بلا خیز تپش میں کربلا کے نمازیوں سے سبق لے کر کڑی سے کڑی منزل پر ذکر نماز سے کب غافل رہے گا۔ اسی کربلا پر ذکر و فکر میں آتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب ختم المر سلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ قرآن کے لئے تزکیہ نفس کرنے کے بعد انسانوں کو علم و حکمت کی تعلیم دی اور آخر میں اللہ تعالی نے تو قرآن میں صاف کہہ دیا ہے کہ ہم اپنے ان بندوں کو اس زمین کا وارث قرار دیں گے جو اس دنیا میں کمزور کر دیئے گئے ہیں۔ اس آیت کے تحت ذکر کرہلا، ذکر شہیدان کربلا، ذکر حسین مستقبل کیا اس صبح کا اعلان کر رہی ہے جب مظلوم ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے گا اور اس کی علامتوں کو توڑ چکا ہوگا۔ یا حسین علیہ السلام کس طرح اور کس زبان سے ، کون سی طاقت گویائی الاول، کہاں سے جنبش قلم پاوں جو آپ کے ذکر سے نسبت رکھتا ہے اسے بیان کروں، کس ثبات قدمی اور کتنی جرات تھی آپ کی اس آواز میں جب آپ خلیل خدا کی وراثت کا بھرپور حق ادا کر رہے تھے۔ روایت میں ہے کہ جب امام حسین جنگ کر رہے تھے اور آپ کی پیاس اس شدت پر تھی کہ سارا جہاں و اموال و انواں نظر آرہا تھا اور سینہ اقدس حسین میں کلیجہ اس زمین کی طرح تھا جس پر پانی خشک ہو جانے سے دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور تلوار کی کاٹ اور جملہ اتنا زور دار تھا کہ آخری صف کے بد بخت سپای دیوار کوفہ سے ٹکڑا رہے اسوقت جبرئیل نے چاہا کہ اپنے پیروں کا سایہ حسین پر ڈال دیا۔ امام حسین علیہ السلام نے اسوقت ارشاد فرمایا تھا۔ بندے اور معبود کے بیچ سے ہٹ جا، جبرئیل یہ وقت امتحان ہے حسین علیہ السلام اسوقت ذکر خدا کا لسانی اور عملی امتحان دے رہے ہیں؟ وہ حسین جسکے بارے میں معنی خیز حدیث مرسل اعظم نے فرمائی تھی میں حسین سے ہوں ” بالراست اپنے مالک سے اپنے نانا کی امت کے بخشوانے کا ذکر کر رہے تھے۔ وہ تفسیر اس آیت کی بیان کر رہے تھے۔ جہاں خدا نے کہا تھا یہ  عہدہ امامت ظالموں کو نہیں ملے گا۔ یہ صابروں کیلئے ہے اس لئے ذکر حسین ذکر علی ہے۔ ذکر علی ذکر رسول ہے اور ذکر رسول ذکر خدا ہے اور ذکر خدا عبادت ہے بقائے عبودیت کے مضامین، عظمت عبادت کے سب سے ارفع و اعلی نشان، خاشعین کی معراج، متقین کی آبرو، صالحین کے ضمیر کی روشنی، مومنین کے ایمان کی تنویر ، چاہنے والوں کے آنسوؤں کی توقیر، بے بضاعت کی عزت، فقیر کی قناعت پر امداد غیبی، سرکشوں کی تذلیل، متکبروں کی خواری، در دیدہء دہنوں کے دندان شکن جواب اور بہت کچھ بہت کچھ ذکر حسین سے نصب ہوتا ہے۔ سلام آپ پر اے مولا حسین آپ کی حضرت کے قبہ کے تحت دعا قبول ہوتی ہے۔ دعا ذکر خدا ہے قبولیت اس کی روح ہے۔ 

سجده :

 معلوم نہیں پیشانی آدم سے وہ کون سی نور کی کرن چھوٹی تھی کہ تمام ملائکہ منہ کے بل سجدہ میں گر پڑے تھے۔ علامہ اقبال (لاہوری) بظاہر شیعہ نہ تھے لیکن حقیقت سجدہ کے بیان میں بخیل بھی نہ تھے ورنہ یہ کیوں کہتے۔ اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے ایک ضرب به الٰہی اک سجده شبیری علامہ اقبال نے بس اس کے سوا کیا ہے کہہ کر ایک جھٹکا سادیا ہے۔ کہیں سے جیسے کچھ کرید رہے ہوں یا جیسے کچھ اور تلاش کر رہے ہوں اور جب تھک گئے ہوں اور کچھ نہ ملا تو قلم ر کھ کر عالم حیرانی میں یہ کہہ دیا کہ بس اس کے سوا کیا ہے۔ اس شعر میں مطالب ہیں۔ آثار کی پہلو داری ہے نرم مزاجی سخت روی میں تغیّر لا  سکتی ہے۔ ایک مومن میں دو متضاد کیفیت کا شعور پیدا کر سکتی ہے۔ چنانچہ وہی شاعر کہتا ہے : ہو حلقہ   یاراں تو ہے ریشم کی طرح نرم، رزم حق باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔ مومن جو ریشم کی طرح نرم اور ملائم ہے وہی فولاد  کی طرح سخت بھی ہے۔ علامہ موصوف نے اک سجدۂ شبیری کے سوا اور کیا ہے کہ کر سجدۂ شبیری کی تحمید و تمجید میں اپنے عقل و شعور ، فکر و فہم ، علم و عمل اور عدالت و انصاف کے مظاہرے میں اپنا گویا پورا زور لگا دیا ہے۔ پوری طاقت صرف کر دی ہے۔ اللہ تعالی کی ربوبیت ، خالقیت، مالکیت قدرت مطلقه و سعت لامتناہی، رفعت بے پایاں کے سامنے سجدہ انسان کی خاشعیت، ضعف، ذلت، حقارت، مسکینیت، مستکینت کا ایک گویا دفتر احتساب ہے جس پر سجدۂ شبیری کی آخری مہر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دمک رہی ہے۔ یعنی امام حسین علیہ السلام کا وہ آخری سجدہ جو کربلا کی سر زمین پر ادا ہوا ایک قدرت کی طرف سے ایسی کسوٹی ہے جس پر بندگان سجده گذار کے جود کا اخلاص پرکھا جائیگا۔ 

اهمیت سجدہ

 غور طلب بات ہے کہ تخلیق بشریت سے لے کر روز سزا و جزا تک اللہ تعالی کی مشیت اور مقصد تخلیق کائنات کا مرکز صرف سجدہ ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کے لئے سجدہ کو نشان نجات قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں متعدد بار آگہی دی ہے اور فرمایا ہے : 

وويش ما في السموات والأرض،

 آسمان اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اللہ کے سامنے سر بسجود ہے۔ آگے بڑھ کر قرآن کریم کا ارشاد ہوتا ہے۔ 

أَلَمۡ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَسۡجُدُ لَهُ ۥ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَن فِى ٱلۡأَرۡضِ وَٱلشَّمۡسُ وَٱلۡقَمَرُ وَٱلنُّجُومُ وَٱلۡجِبَالُ وَٱلشَّجَرُ وَٱلدَّوَآبُّ وَڪَثِيرٌ۬ مِّنَ ٱلنَّاسِ‌ۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيۡهِ ٱلۡعَذَابُ‌ۗ 

(سورہ حج  ، آیت ۱۸) 

کیا تم نے انہیں دیکھا کہ زمین و آسمان میں جس قدر بھی (صاحبان عقل و شعور ہیں) اور آفتاب و ماہتاب اور ستارے پہاڑ، درخت، چوپائے اور انسانوں کی ایک کثرت سب ہی اللہ کیلئے سجدہ گزار ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جن پر عذاب ثابت ہو چکا ہے۔ اور بھی محکم اور بین آیات قرآنی ہیں جن میں سجدہ، ساجد اور مسجود کا ذکر بڑی اہمیت کا حامل ہے اور سجدہ پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حتی کہ کچھ آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت کے بعد سجده واجب قرار دیا گیا ہے سجدہ کا عمل یہ ہے کہ پیشانی زمین پر ہو (یا جس پر سجدہ جائز قرار دیا گیا ہے) اور و ذکر رب جلیل کی سبحانیت (پاکیزگی) اور حمدیث یعنی ساری تعریف اللہ کی ) کا ذکر ہو۔ دین اہلبیت نے جس طرح ہماری حیات دینوی کو سازندگی کا سلیقہ سکھایا ہے اس میں سارا جہان خدا کی بندگی میں رکھا ہے اور ان تمام عقائد اور تبلیغات باطلہ سے پرہیز کرنے کیلئے حکم دیا ہے (ہاں جو عبودیت سے منحرف کرنے والے ہیں ۔ پہلے سے بھی اور کچھ آج کل کے زمانہ میں زیادہ ہی زور شور کے ساتھ دائرہ ولایت اہل بیت میں آنے والوں کے در میان ایسے شعار اور جملے سنائی پڑتے ہیں جن سے روح کانپ جاتی ہے۔ کوئی ملک کی فکر کی بستی میں گھومتا ہے تو کوئی صوفیانہ ریاضت کا ذکر کرتا ہے) بارگاہ حسینی سے یہ آواز بھی آرہی ہے کہ محبان حسین سجدہ کی اہمیت کو قرآن کی روشنی میں درک کریں اور سجده گذاری کی صف میں شامل رہیں۔ اور ذرا سجده آخر امام حسین علیہ السلام پر غور کرئے یہ وہ سجدہ ہے جو بقائے اسلام کا ضامن ہے جو مرسل اعظم کی رسالت کا روح رواں ہے جو عالم ہست و بود میں انسانیت کا نقیب ہے اور صبر ورضا کی منزلوں میں چراغ ہدایت ہے جو خلاصہ وراثت انبیاء ہے۔ یا حسین آپ کے سجده آخر پر ہمارے ماں باپ قربان آپ پر اس لئے کہ آپ کا سجدہ آخر تمام انبیاء اور مرسلین کے مجمود کا بیانہ اور میزان قرار پایا اور ہم سب شیعوں کے بے بضاعت سجدوں کو بھی درس خاشعیت عطا فرمائی ہے۔ اے کاش ہماری قوم اس دور میں اتباع سجده حسین میں سجدہ الٰہی کا قرینہ پاجائے تو آج جو وہابیت۔ پیروان ابن تیمیہ اور دشمنان اہل بیت جو پھر سے ابھر کر آرہے ہیں ان کے بدنما چہروں پر خاک پڑ جاتی۔ یا اللہ تیری آخری حجت کے واسطہ اور وسیلہ سے تیری بارگاہ میں آتے ہیں اور ان علیہما السلام کی قداست، طہارت اور پاکیزگی سے تیری بندگی کا سلیقہ پایا ہے ہم سوگوران حسین کی قوم جو تیری کنیز خاص کی دعاؤں کی برکت سے پھل پھول رہی ہے اسے امام حسین علیہ السلام دلیند علی اور زہرا(ع) کے آخری سجدہ کی معرفت عطا فرما۔ اے اللہ تیرا شکر ادا کر تا ہوں جو شکر کرنے والے تیرا شکر مصیبت کے وقت ادا کرتے ہیں اللہ کا شکر و حمد ہے عظیم مصیبت پر۔ یا اللہ مجھے نصیب ہو شفاعت امام حسین کی قیامت کے روز اور مجھے ثابت قدم رکھ اپنے نزدیک محبت میں حسین کے ساتھ اور اصحاب حسین کے ساتھ کہ جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی نصرت میں عطا فرما۔ آمین ثم آمین۔ 

(زیارت عاشورہ کی آخر میں دعا جو سجدہ میں پڑھی جاتی ہے (ترجمہ) 

یقین

امام حسین علیہ السلام کا نام زبان پر آتا ہے تو ہر پاک نفس کی وہ استعجابی کیفیت ہوتی ہے جسے صرف وہی محسوس کر سکتا ہے اور اس کی کیفیت کا کوئی پہلو لفظوں میں ادا کرنا جیسے ایک امر محال ہے۔ اور حقیقت میں یہی ہے کہ اہل زمین اپنی ساری عقل کو سمیٹ کر چاہیں کہ وہ صفات و اقدار جو امام حسین علیہ السلام کو پروردگار نے آپ کی خلقت میں عطا فرمائے ہیں اسے کسی بھی گوشہ سے پوری طرح سمجھ لیں یہ ممکن نہیں امام حسین علیہ السلام کا ارادہ – ارادہ کے بعد اقدام ، اقدام کے بعد صبر و استقلال کے ساتھ ہر موڑ پر اسکی منزل قرار دینا۔ منصوبہ کے لحاظ سے وقت کا تعین ، مرسل اعظم کی رسالت کا بیان۔ لب اقدس سے نکلے ہوئے لفظوں میں ایک وسیع مطالب مکتوب میں اسلوب کی جاذبیت اور حفظ مراتب سفر اور حضر میں عبادت الہیہ پر ہر نہج سے قائم رہنا۔ سلوک باہمی اندرون خانہ اور بیرون ممثلات، انتخاب میں نور مودت کا تحفظ ، لیکن آپ کی ذات مرکز انوار الہیہ تھی اور ہے جو ہر طرح سے ہر پہلو سے گویا بول رہی ہے اس دنیا میں اگر سب خلقت بشر کو اس غرض و غایت کے لحاظ سے جینا ہے کہ وہ فتنہ، مکروہات، و بال اور بلاؤں سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اور اس چند روزہ زندگی کو حیات جاودانہ اور اس کی منزلوں اور اسکے درجات عالیہ سے روشناس کرانے کا علم رکھتا ہے تو اسے چاہیے حدیث کربلا کو خوب اچھی طرح پڑھ ہے۔ اور اگر ایسا کیا تو وہ آج بھی امام حسین علیہ السلام کی صدائے استغاثہ کو گوش گزار کر سکتا ہے۔ اور آپ کی نصرت میں یا حسین لبیک کہنے کا حق رکھتا ہے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے بڑے بڑے راز حقیقت انسانی اور خلقت کائنات عالم کا انکشاف ان لوگوں پر ہوا جنہوں نے مرسل اعظم کی رسالت علی ابن ابي طالب علیہ السلام کی ولایت اور آپ کے فرزند امام حسین کے منصب امامت پر یقین کو گہرائی اور استحکام کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہیں ۔ یہیں یقین ایک ایسا چراغ ہے جو انسان کی وحشت زدہ زندگی کیلئے سکون اور چین کی راہوں کو روشن کرتا ہے اور اسے حصول علم کے وہ راستے دکھاتا ہے جس پر گامزن ہونے کے بعد کوئی بھی کسی بھی فریب سے نہ گمراہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی سامری اپنے رسی کے ٹکڑوں سے تبدیل ہوتے ہوئے سانپوں سے خوف زدہ کر سکتا ہے اور نہ کوئی بد فطرت خو بصورت کا روپ دھار کر طاغوتیت کا حلقہ 

بگوش بنانے کی جرات کر سکتا ہے۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ یقین کی ضوفشانی میں ایک کامیاب اور کامران زندگی بسر کرنے کا راز مضمر ہے لہذا یقین سر چشمہ معرفت خدا اور ائمہ ھداۃ معصومین ہے۔ بالاختصاص ہم کب پر تو عظمت حسین کی جھلک پا سکتے ہیں؟ اگر ہم نے اپنے یقین کی جستجو کو اس جانب جو یقین کی اعلی ترین منزل ہے یعنی امام حسین علیہ السلام کے یقین کی منزل کی طرف تیز اور تیز گام نہیں ہوں گے۔ لیکن یہ یقین جو ہر زبان کی نوک پر رہتا ہے جسے ہر کوئی اپنی اپنی زبان سے متعدد بار ادا کر تا رہتا ہے وہ ہے کیا؟ اسے کیسے سمجھایا جائے، یا اسے کسطرح احاطہ احساس میں لا سکتے ہیں اسکے معنی اور مطالب کی شرح چنداں به حد عقل کس طرح کر سکتے ہیں اور پھر امام حسین کے یقین کے بارے میں کچھ لکھنے کی جرات و حوصلہ کیسے پیدا کریں گے ؟ مضمون کا دامن چھوٹا ہے، قلم کی سکت بہت کمزور ہے تا ہم قارئین کیلئے جتنے مطالب ہو سکتے ہیں اسے تو بیان کر ہی سکتے ہیں۔ 

یقین کی تعریف 

یقین اسے کہتے ہیں جہاں شک کا گزر نہ ہو ۔ جو لاریب ہو جہاں وہم و گمان کی دخالت ممکن نہ ہو یقین تور قلب ہے۔ یہ پاکیزہ قلوب کو اپنا مسکن قرار دیتا ہے اس تعریف کے تحت یقین کے مندرجہ ذیل شعبہ ہیں: 

ا۔ تبصرہ الفطنہ ۔ وہ بصیرت چو نشر و مندوں کی املاک ہے۔ 

۲۔ حکمت کی جڑ تک پہونچنے کیلئے استوار بہت سے قدم آگے بڑھانا۔ سے 

عبرت سے نصیحت حاصل کرنا۔ جائے عبرت ہو تو اس پر اپنی فکر کو مہمیز کرنا۔ ۳

۴۔ سنت الاولین ۔ جو نیک اور صالح بندے گزر گئے ہیں ان کی سنت پر عمل کرنا۔ 

اگر ہم شعبہ ہائے مذکور کی طرف نگاہ کریں گے یا یوں کہوں ان شعبوں کی سیر کریں گے تو پتہ چلے گا ہمارے وجود کے ظرف نے کس درجہ یقین کی بیش بہا نعمت کو پایا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہمیں ثمرات الیقین، یعنی یقین کے پھلوں کی دستیابی ہوگی اور ہم ان کے فوائد سے حیات دنیوی کو حیات اخروی کی بشارت دیں گے۔ یہ ثمرات الیقین کیا ہیں ہم ان کے باب کو تو کھول کر تفصیل سے کام نہیں لے سکتے ہیں کہ ہر باب کے نام ضرور گنا کر اس کی تعریف میں دو جملے لکھ سکتے ہیں۔ 

ثمرات الیقین 

۱-  صبر     

یہ سب سے اساسی لازمہ یقین کا ہے۔ جب صبر یقین کے ماتھے پر نور بن کا ساطع ہوتا ہے تو اسے خالق کی قدرت کا اندازہ ہوتا ہے اور اسی کے تحت تاثیر ایک عجیب رونق حیات و جود و خاکی پر پیراہن دیدہ زیب بن جاتا ہے اور ایک عجیب لذت روحانی سے انسان دوچار ہوتا ہے۔ اس کے مدارج ہیں۔ جو بلند ہو کر ایسی ارفع على منزل کی طرف جاتے ہیں جہاں سے میر حسین کی جلوہ گاو نظر آنے لاتا ہے۔ امام حسین کا صبر یقین کا معیار ہے۔ آپ کا صبر یقین کی معراج ہے۔ امام حسین آپ کے پر تو یقین سے ہمیں عبرت کا سلیقہ عنایت فرمایئے۔ 

۲۔ اخلاص

یہ یقین کی جڑوں کو مضبوط کرتا ہے اگر اخلاص میں ذرا بھی دراڑ آئی تو یقین متزلزل ہو جائے گا۔ اخلاص سے دین قوی ہوگا اس لئے کہ دین کی اساس یقین ہے۔ 

۳۔ زہد و تقوی

قرآن کا فرمان ہے یتقبل الله من المتقين 

 توكل ۴-

 توكل على الله. اللہ پر بھروسہ رکھنا۔

1431 19

۵-  رضا  

اللہ کے فیصلہ پر رضامند رہنا۔ 

 ۔ تسہیل مصائب ۶

مصائب سے گھبرانا نہیں، اللّٰہ اپنے بندے کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف میں مبتلا نہیں کرتا۔ اب جب بات یقین کی آہی گئی ہے تو اس کی پہچان کیسے ہو، اس کا بھی ذکر کرتا چلوں اس لئے کہ لفظ یقین کو لوگ ادا کرنے میں بڑے بڑے دھوکے کھائے ہیں۔ ہر ظالم پر دنیا پرست ہر ہٹی یا ضدی اپنے حصول مال اور حصول شہرت اور دنیا کیلئے ہی نہیں بلکہ اس لفظ کو استعمال کرکے خود کو کیا فریب دیتا ہے اسوقت جب ظلم کرتا ہے یا جب کسی کا کردار بد اخلاق، بد نفس حکمرانوں کے حکم کو مان لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کی باتوں پر یقین کرتا ہوں۔ بہت سے ایسے مراحل اور مواقع ہر دن در پیش آتے رہتے ہیں جہاں لوگ اپنے لئے یقین کا لفظ استعمال کر کے خود کو فریب دیتے رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے عقل کے بارے میں جب معاویہ بن ابی سفیان کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جس کے بل پر وہ اپنی حکومت چلاتا تھا تو وہ صاحب عقل تھا۔ اس کے جواب میں معصوم نے فرمایا معاویہ کے پاس یہ عقل نہیں تھی جس کے ذریعے وہ حکومت کرتا تھا بلکہ عقل کی ایک ضد ہے جسے نکرہ کہتے ہیں وہ تھی۔ وہ اس کرہ کے سہارے تمام افعال شنیعہ کا مرتکب ہوتا تھا۔ ورنہ وہ حجر بن عدی کو کیوں قتل کرواتا۔ وہ یزید کی خلافت کیلئے سارے سیاسی داؤں پیچ کیوں بروئے کار لاتا۔ یہ عقل کا فیصلہ نہ تھا بلکہ نکرہ کے ذریعہ طلب دنیا اور اقتدار حکومت کیلئے اقدام کرنا تھا۔ بعینہ اسی طرح جحود و یقین کی ضد ہے۔ ہم یہاں جحود پر کچھ قارئین کرام کی نظر کرنے کیلئے سعی کریں گے۔ ہر چیز اپنے ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ ہے۔ چنانچ یقین محکم ہے یقین کمزور ہے۔ اوسط درجہ پر ہے۔ یقین نہیں ہے اس کا بھی ایک پیمانہ ہے اللہ تعالی کی تمام نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ ہر انسان اپنی فطرت میں اللہ تعالی کی طرف سے ودیعت کردہ قوت فیصلہ رکھتا ہے۔ جیسے جیسے یقین کی ضد جود انسان کے یقین پر غالب آتا ہے یا اپنے اثرات یقین میں سرائت کرتا ہے ویسے ویسے ایک کیفیت این خود بخود اس پر ظاہر ہوتی ہے۔ انسان ایسی صورت میں تاویلات یا بہانہ تراشی سے کام لے کر خود کو مطمئن یا منزل یقین پر سمجھنے کی بات کر تا ہے ۔ امروز و فردا میں ہر  ایک جو حق کے سامنے کھڑے باطل کی حمایت کرتے ہیں وہ کیفیت کو جانتے ہوئے باطل پرستی پر ڈٹے رہتے ہیں۔ یہ منزل یقین نہیں ہے منزل مجود ہے جو کا اپنا شکر ہے ہم یہاں اس کے چند سر براہوں کا ذکر کریں گے۔ 

اول: ہوائے نفسی: ہوا و ہوس پر آدمی کیا نہیں کر گزرتا۔ آج شہوات نفسانی کے کتنے مراکز کھلے ہیں اور اسکو ہنر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وہ عامل ہے جو انسان کے یقین کے چراغ کی لو کو بالکل مدھم کر دیتا ہے۔ اور اسے زندگی کے اوصاف حمیدہ اس دھند لگے میں بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ 

حرص: لالچ – طمع: دولت کا زیادہ سے زیادہ جمع کرنا، عیش کوشی کیلئے تمام اسباب کی فراہمی جائز ناجائز، حرام حلال، اچھا برا، ان سب میں تمیز نہ کرنا احتیاط برتنے سے بالکل غافل ہو جانا اور پھر جب کوئی کمزور ہونے لگیں تو خود کو کسی تاویل کے زریعے یہ حلق ، یقین میں تصور کرنا۔ 

جدال: طبعیت پر قابو نہ رکھ کر خوب بحث میں مصروف رہنا اور بحث میں اپنی دفاع میں جو کچھ کیا ہے یہ کہا ہے اسے صحیح ثابت کرنا۔ آج کل ہمارے جوان اسی الٹی سیدھی بحثوں میں انسانیت کے حد سے گزر جاتے ہیں۔

حب المال: یہ ایک بہت کڑا اور سخت امتحان ہے۔ جاد اور مال کی اسکی چاہت جس پر اپنے فیصلہ کو خدا کا فیصلہ سمجھتا ہیں جیسے مسلم بن عقبہ۔ یہ وہ شخص ہے جو یزید ملعون کی طرف سے سپہ سالار تھا اور جس نے کعبہ کے حدود میں آگ کے گولے برسائے ، غلاف کندہ جلا دیا اور انہدام کعبہ کا مرتکب ہوا۔ خدا نے اسے وہیں مرض الموت میں مبتلا کیا۔ اور جب واصل جہنم ہونے لگا تو اپنے سرداروں کو بلا کر کہا تم لوگ گواہ رہنا کہ میں نے یزید کے ہاتھ پر بیت کی تھی اور خلیفہ یزید کے کہنے پر کعبہ پر حملہ کیا تھا۔ یہ جحود کی وہ منزل ہے جہاں تلقین کی پوری، بھر پور ضد سامنے آجاتی ہے۔ دنیاپرستوں کے ساتھ رہنا: جحود کا ایک سب سے بڑا اور قومی حربہ دنیا پرستی ہے دنیا پر ستی کچھ ایسے جال پھینکتی ہے جس میں اگر کوئی چنا تو پھر حق پرستی کی طرف اگر مائل ہونا بھی چاہے تو اس جال کے چندے اسکو جکڑ کر رکھتے ہیں۔ 

قیامت پر ایمان نہ رکھنا: معلوم نہیں کتنی باتیں قیامت پر ہوتی ہیں ہر اسلام قبول کرنے والا قیامت پر ایمان رکھنے کا دعوی کرتا ہے۔ پر قاری قرآن قیامت کو اپنا حاصل ایمان جانتا ہے کون مسلمان ایسا ہے جو یہ کہے کہ اسکا ایمان قیامت پر نہیں ہے لیکن اگر نچوڑا جائے تو اکثریت وہ نکلے گی ۔ جو سرکش، مطلق العنان اور قیامت کے دان سے بے خوف نظر آئے گی۔ 

یقین: کتاب کا نور ہے، قلب انسان کی روح کا مرکز ہے ، زبد تقوی اس کا فانوس ہے، صبر ، اخلاص، توکل، رضا، تبوین مصائب یقین کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب ہم یقین کی بات کرتے ہیں اور اس بات میں کچھ دم ہوتا ہے کچھ زور ہوتا ہے کچھ روشنی ہوتی ہے تو یاد آتا ہے امام حسین علیہ السلام کا یقین کیا ہو گا، وہ کون سی بلندیاں ہوں گی، کون سی رفعتیں ہوں گی جہاں آپ کا یقین جلوہ گر ہو گا۔ 

ایثار و قربانی: اے منی کی سرزمین، فخر کر کربلا کے شہیدوں پر میج عاشور سے عصر عاشور تک وارث خلیل و اسمعیل نے بہتر شہیدوں کو یکے بعد دیگر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا “هذا قربان تقبل منا اور جب امام حسین خود شہید ہوئے تو پہلو میں بہن کھڑی ہو کر دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کر کے کہہ رہی تھیں اقر بان تقبل منا۔ کیا خوب کہا علامہ اقبال نے

عجیب سادہ و رنگیں ہے داستان حرم

نہایت جسکی حسین ابتداء ہیں اسمعیل

سکون قلب: کون سا ایسا مذہب ہے جو سکون قلب کی تلقین نہ کرتا ہو لیکن کون سی ایسی تدبیر کسی نے یا کون سی صورت ایسی نکالی ہو جس سے سکون قلب حاصل ہو۔ یا حسین آپ پر سوگواروں کے بر ناو پیر بچے عورتیں کیسا بیتاب ہو کر آپ کے مصائب پر گریہ کرتی ہیں اور بے شمار لوگوں سے یہ کہتے سنا ہے جب امام حسین علیہ السلام کے مصائب سن کر جی بھر کر رولو تو قلب کو سکون ملتا ہے۔ یا حسین آپ سرچشمہ اطمینان قلب ہیں۔ اے پردہ غیب کے سوگوار مولا حجّت ابن الحسن علیہ السلام ہماری قوم کے قلوب کو ذکر حسین، سجدہ حسین، یقین حسین، ایثار و قربانی حسین اور اطمینان قلب حسین کے صدقے میں ہمیں ایسی توفیقات عطا فرمائے جو بارگاہ حسینی میں ہمیں منہ دکھانے کے قابل بنادیں۔ آمین۔

اسرار الشھادة کی انفرادیت

امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک ایسی شہادت ہے جس سے دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہوا اور اس وقت سے لیکر آج تک دنیا میں جتنے انقلاب آئے ہیں۔ اگر گہرائی سے انہیں ٹٹولا جائے تو کہیں نہ کہیں ان کی تہوں میں امام حسین علیہ السلام ملنگے جن کی فکر اور مشن سے لوگوں میں حرکت پیدا ہوئی جسکے نتیجہ میں انقلاب آیا۔ یہی وجہ ہیکہ دنیا کی ہر قوم امام حسین علیہ السلام کے انقلاب سے آشنا ہے۔ اور ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ ہمیشہ اس موضوع لکھا جاتا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ اس بات کی دلیل کے لئے یہی کافی ہے کہ سینکڑوں کتابیں تو خاص طور سے عاشورہ سے متعلق مقتل کے عنوان سے لکھی گئی ہیں اور ہر ایک کتاب اپنی جگہ کچھ نہ کچھ انفرادیت و خصوصیت تو رکھتی ہی ہے۔ لیکن زیر نظر مضمون ایک ایسی کتاب کے تعلق سے ہے جو صرف ایک مقتل یعنی امام حسین علیہ السلام اور انکے اعوان و انصار پر عاشور کے دن گذرنے والے واقعات سے نہیں ہے بلکہ فقہی، اصولی، عقائد کی ، تار سینی، روائی، رجالی، عرفانی و غیر ہ ایک ہی وقت میں ہے۔ کیونکہ اس کتاب کے مصنف نے اس کتاب کو مجلسوں پر لکھا ہے اور اس کے شروع میں بارہ مقدمے تحریر کئے ہیں۔ اور ہر مجلس کے ذیل میں کچھ ایسی باتیں تحریر کی ہیں جو مجلس میں ذکر کی گئی باتوں کے لئے دلیل اور تائید ہے، یا پھر ان باتوں کی علت اور وجہ ہے یا پھر اس کا پس منظر بیان کیا ہے اور ان سربستہ راز سے پردہ اٹھایا ہے جس کے لئے یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ یہ صرف صاحب کتاب کی خصوصیت ہے۔ کیونکہ صاحب کتاب صرف مورخ، خطیب توانایی نہیں تھے بلکہ ایک فقیہ، ایک مربع، محقق، مختلف علوم کے ماہر شخص تھے۔ اور اس بات کا اعتراف خود آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الطبقات اعلام الشیعہ میں اسطرح کیا ہے عالم تبحر ، حکیم بالغ فقیہ فاضل ، رجالی محدث۔ 

قارئین راقم الحروف نے جب اس کتاب کو مطالعہ کرنے کے لئے اللہ کی توفیق سے اپنے ہاتھوں میں لیا تو اس کتاب کے مطالب نے کچھ اس طرح جذب کر لیا کہ کتاب کی پہلی جلد کا مکمل مطالعہ ہو گیا لیکن دل میں کتاب میں موجودہ راز جاننے کی چاہ دوگنی ہو گئی اور دل میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی کہ جن چیزوں کو ہم بہت ہلکے انداز میں لیتے ہیں حقیقت میں ہمیں اس کے لئے دل و جان سے کوشش کرنی چاہئے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ قارئین اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے آیئے آپکو کتاب کی انفرادیت سے روشناس کراتے ہیں۔ پہلا مقدمہ ان اسباب کے بیان میں ہے کہ کیوں اللہ تعالی نے ائمہ کو دشمنوں کے شر سے نہیں بچایا اور انہیں قتل ہونے دیا۔ یا دوسرے لفظوں میں کیوں حسین علیہ السلام شہید ہو گئے اور اللہ تعالی نے انہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ نہیں رکھا۔ 

مقدمہ مجلسی کا جواب : علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ائمہ کو شہید ہونے سے، ظالموں کے ظلم سے ، اور ائمہ کا مصیبتوں میں گھرے رہنے کی علت کے بارے میں ، کتاب کمال الدین اور احتجاج اور علل الشراع میں اس طرح ہے کہ محمد ابن ابراہیم اسحاق الطالقانی کہتے ہیں ہم شیخ ابو القاسم ابن روح کے پاس ایک گروہ کے ساتھ تھے جس میں علی ابن عیسی القصری بھی تھے۔ ایک شخص کھڑے ہو کر حسین ابن روح سے کہتا ہے کہ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا جو سوال پوچھنا چاہتے ہو پوچھو ۔ اس شخص نے کہا مجھے بتایئے کیا امام حسین علیہ السلام اللہ کے ولی اور حجت نہیں تھے؟ انہوں نے جواب دیا بیشک تھے۔ پھر اس نے سوال کیا۔ کیا ان کا قاتل الله کا دشمن نہیں تھا؟ انہوں نے فرمایا: بیشک تھا۔   اس شخص نے اس وقت کہا: کیا یہ مناسب اور جائز ہے کہ اللہ اپنے دشمن کو اپنے والی پر مسلط کر دے؟ ابو القاسم حسین ابن روح نے فرمایا : 

غور سے سنو جو میں کہنے جارہا ہوں۔ بے شک اللہ تعالی لوگوں کے سامنے آکر مخاطب نہیں کرتا ہے۔ اور نہ ہی کسی سے گفتگو کرتا ہے بلکہ اللہ نے انبیاء اور رسول کو انکے در میان اور انہیں کی صنف سے اور اُنکے جیسا بشر بناکر بھیجا۔ اگر اللہ ایک الگ قسم کی مخلوق کو نبی بناکر بھیجتا تولوگ بھاگ جاتے اور ہر گز قبول نہیں کرتے۔ اور جب انبیاء انسانی پیکر میں آئے کھانا کھاتے اور بازار میں جاتے تو لوگوں نے انبیاء سے کہا: آپ ہماری طرح ہیں ہم اس وقت تک آپکو تسلیم نہیں کریں گے یہاں تک کہ آپ ایسی چیز پیش کریں جسے ہم جیسے لوگ نہ لا سکیں تو ہم جان جائیں گے کہ آپ اللہ کے مخصوص بندے ہیں اور ہم نہیں ہیں۔ 

پس اللہ نے انہیں معجزات عطا کئے جسے خلق پیش کرنے سے عاجز ہے۔ ایک مختلف اشیاء اپنے زمانے کے لحاظ سے الگ الگ معجزات لیکر آئے۔ میں آج بھی اپنی قوم کو ڈرانے کے بعد بد دعا کرتے ہیں اور طوفان سارے ظالموں اور سرکشوں کا قلع قمع کر دیتا ہے۔ اور کچھ انبیاء کو آگ میں ڈالا گیا اور آگ گلزار بن گئی۔ اور کچھ نے سخت پتھروں سے اوٹنی پیش کیا اور اس کے پستان میں دودھ پیدا کیا اور کچھ نے سمندر کا سینہ چاک کر کے راستہ بنایا اور پھر سے پانی کا چشمہ جاری کیا اور کچھ نے اندھے کو روشنی اور مبروص کو شفا دیا اور مردوں کو اللہ کی اجازت سے زندہ کیا۔ اور کچھ نے چاند کے دو ٹکڑے کیے اور جانوروں جیسے بھیڑے اونٹ وغیرہ سے بات چیت کی۔ 

اور جب اس طرح کے معجزات لائے اور لوگ اس طرح کے معجزات پیش نہیں کر سکے تو اللہ تعالی نے اپنے لطف و کرم اور حکمت و تقدیر سے انبیاء کو اپنے بندوں پر غلبہ عطا کیا اور اس لحاظ سے وہ ہمیشہ کامیاب رہے۔ اور دوسرے حالات میں اللہ نے انہیں مغلوب قرار دیا۔ اور اگر تمام حالات میں انہیں غلبہ اور کامیابی عطا کرتا اور انہیں مصیبتوں میں اور امتحان میں مبتلا نہ کرتا تو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے کو اپنا خدا مان لیتے اور بلاؤں میں صبر کی فضیلت و رتبہ اور امتحان میں کامیابی کا تصور ختم ہو جاتا۔ 

لیکن اللہ تعالی نے انبیاء اور اوصیاء کے حالات کو دوسرے لوگوں کے حالات کی طرح قرار دیا تا کہ وہ پریشانیوں، بلاؤں اور سختیوں میں صبر کریں، اور صحت و سلامتی اور دشمنوں پر کامیابی میں شکر کریں اور تمام حالات میں متواضع رہیں جابر اور ظالم نہ رہیں ۔ اور اللہ کے بندوں کو پتہ چل جائے کہ ان کا کوئی خدا ہے اور وہی ان کا خالق و رازق ہے اور وہی انکی تدبیر کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی عبادت کریں اور اسکے رسول کی اطاعت کریں۔ اور اللہ کی حجّت ان لوگوں پر تمام ہو جائے جو ان پر ستم کریں یا ان کے لئے ربوبیت کا دعوی کریں، یا ان سے دشمنی، مخالفت، انکار کریں جو اللہ کے رسول لیکر آئے ہیں۔ تا کہ جو لوگ ہلاک ہورہے ہیں وہ دلیل و برہان کے بعد ہلاک ہوں اور جو زندہ اور باقی ہیں وہ بھی دلیل و برہان کے ساتھ زندہ ر ہیں۔ 

محمد ابن ابراہیم ابن اسحاق کہتے ہیں: ایک دن کے بعد میں شیخ ابوالقاسم حسین ابن روح کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور اپنے دل میں کہہ رہا تھا کہ کل جو انہوں نے کہا کیا وہ انہوں نے اپنے پاس سے کہا ہے۔ جناب شیخ حسین ابن روح نے اپنی طرف سے مجھ سے کہا اے محمد ابن ابراہیم اگر میں آسمان کی بلندیوں پر رہوں اور پرندہ مجھے اوپر سے پھینک دے، یا ہوا مجھے اندھی گھائی میں اڑالے جائے، یہ میرے لئے زیادہ محبوب ہے اس بات سے کہ میں دین خدا میں اپنے دل سے کوئی بات کہدوں یا اپنا نظریہ بیان کر دوں۔ 

اور پھر اسی مقدمہ میں سنی عالم اور مفتی اردی سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں :- وہ کہتا ہے بڑے بڑے سردار علماء اور ہم میں سے کچھ لوگ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں لوگوں کی آمد و رفت زیادہ تھی۔ اسی دوران ہمارے پاس سے ایک عجمی کا گزر ہوا۔ اور لوگ اسکو چھوٹا ہونے سے اور عوام الناس ہونے کی وجہ سے نہیں بلاتے تھے بیٹھے ہوئے اشراف نے اس کا مذاق اڑانا اور طعنہ دینا شروع کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا اے عجمی اور اے بیوقوف کیوں تم لوگ ہر سال محرم میں بچوں کی طرح کام کرتے ہو، اپنا سینہ کو ٹتے ہو اور مٹی اپنے سینے پر ڈالتے ہو یا روتے اور چلاتے ہو ، اور یا حسین یا حسین کہتے ہو۔  

اس شخص نے پلٹ کر کہا جانتے ہو اس کا راز کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا نہیں۔ اس نے کہا: کیونکہ یہ کام کرنا ہمارے لئے ضروری اور لازم ہے اس لئے کہ اگر ہم نے یہ کام چھوڑ دیا اور مدتوں چھوڑے رکھا تو تم لوگ کہنے لگو گے کہ: یزید لعین نے جگر گوشہ رسول و فاطمہ کو شہید نہیں کیا اور نہ ہی اس نے رسول کی بیٹیوں کو اسیر کیا بلکہ اس سے بڑھ کر تم لوگ کہہ دو گے کہ کربلا کا واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ 

ان لوگوں نے کہا کیوں ہم ایسا کرینگے؟ اس نے جواب دیا اس لئے کہ ہم نے اسے پہلے اس کا تجربہ کیا ہے اور اپنی آنکھوں سے اس طرح کی چین میں بار بار دیکھا ہے۔ ان لوگوں نے کیا کیا اور کیسے ؟ اس نے جواب دیا بیشک اللہ کے رسول نے اپنے چچا زاد بھائی کو اپنا وصی۔ امیر المومنین سید الوصیين ، امام اور اللہ کے حکم سے خلیفہ بنایا اور یہ واقعہ حجتہ الوداع کے بعد غدیر خم میں پیش آیا۔ اور اس وقت کرنے کے لئے ستر ہزار سے زیادہ مرد حج کرنے آئے تھے اور یہ واقعہ سینکڑوں راستے سے تم تک پہونچا ہے اور تمہاری کتابوں میں موجود ہے، لیکن جب تم لوگوں نے دیکھا شیعوں نے تقیہ یا خوف کی بناء پر کچھ دنوں تک غدیر کا جشن نہیں منایا جو اسلام میں سب سے بڑی عید ہے تو تم لوگوں نے ہٹ دھرمی دکھایا، اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت کی اور تقریر کے واقعہ کو سرے سے انکار کر دیا۔ اس لئے ہم ہر سال محرم مناتے ہیں، مجلس، نوحہ خوانی مرثیہ ، ماتم و عزاداری کرتے ہیں اور امام حسین کے مصائب کا ذکر کرتے ہیں اور انکے قاتلوں پر لعنت بھیجتے ہیں تا کہ تمہارے دلوں میں اظہر من الشمس واقعہ کے انکار کرنے کی خواہش پیدا نہ ہو۔ 

جب ان لوگوں نے یہ باتیں سنی تو انکے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ کپکپی طاری ہو گئی۔ چہرہ کا رنگ اڑ ہو گیا۔ شرم سے سر جھک گیا۔ اور نگاہیں زمین میں گڑ گئی۔ پھر ان لوگوں نے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے  ہوئے کہا کہ خدا کی قسم یہ باتیں اس شخص کو اللہ نے یہاں پر الہام کیا ہے کیونکہ یہ ایک عام آدمی ہے اس کو علماء کی اصطلاحوں اور علمی مناظروں سے کیا سروکار ہے۔ 

امام حسین پر گریہ کا ثواب و فضیلت 

اسرار الشھادت کی ایک انفرادیت یہ ہیکہ مرحوم اور در بندی نے اپنی کتاب کے دوسرے مقدمہ میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کی فضیت ثواب عظیم عبادت ہونے کے بارے میں مکمل بحث کی ہے۔ مثل منتخب سے ایک حدیث امام صادق علیہ السلام کی نقل کرتے ہیں : جب محرم کا چاند افق پر نمودار ہوتا تھا امام کا حزن و غم شدید ہو جاتا تھا اپنے جد امام حسین علیہ السلام پر بےحد گریہ کرتے تھے، اور چاروں طرف سے لوگ امام حسین کا پرسہ دینے کے لئے آتے تھے اور امام کے ساتھ مل کر امام حسین کی مصیبت پر نوحہ وماتم کرتے تھے اور جب گریہ تمام ہو جاتا تھا تو امام ان لوگوں سے کہتے تھے: اے لوگو جان لو آگاہ ہو جاؤ امام حسین اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور رزق جیسا چاہتے ہیں پارہے ہیں، اور وہ ہمیشہ کربلا کی طرف جہاں شہید ہوئے تھے اور انکے ساتھ جو لوگ شہید ہوئے تھے دیکھتے ہیں، اور اپنے زائرین اور رونے والوں اور عزاداروں کو دیکھتے ہیں، اور وہ اپنے عزاداروں کو چاہتے ہیں اور ان کے نام اور انکے والدین کے نام کو جانتے ہیں اور جنت میں انکے درجہ اور رتبہ سے بھی آگاہ ہیں اور بیشک امام اپنے اوپر گریہ کرنے والوں کو جانتے ہیں اور انکے لئے استغفار کرتے ہیں اور اپنے جد بزرگوار، والد بزرگوار مادر گرامی اور شفیقی بھائی سے گر یہ کرنے والوں اور عزاداری کرنے والوں کے لئے استغفار کی درخواست کرتے ہیں۔ 

اور فرماتے ہیں: اگر میری زیارت کرنے والے اور میرے اوپر رونے والے اللہ کے نزدیک اپنے ثواب اور رتبہ کو جانتے تو وہ رونے سے زیادہ خوش ہوتے۔ اور بیشک میرا زائر اور میرے اوپر رونے والا اپنے گھر والوں کے پاس خوش و خرم واپس  آئے گا۔ اور وہ مجلس سے جب کھڑا ہوگا تو اسکے اوپر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور وہ شخص ایسا ہو جائے گا ہے اس کی ماں نے اسے پیار کیا تھا۔ 

اور پھر ایک حدیث معاویہ ابن وہب سے نقل کرتے ہیں: معاویہ ابن وہب کہتے ہیں میں نے امام صادق علیہ السلام سے ورود کے لئے اذن طلب کیا امام نے بار یابی کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ میں امام کے پاس جب گیا تو میں نے دیکھا کہ امام اپنے مصلے پر ہیں، میں بیٹھ گیا یہاں تک کہ امام نے اپنی نماز مکمل کر لیں۔ پھر میں نے سنا کہ امام اللہ سے 

 مناجات کرتے ہوئے کہہ  رہے تھے :

اے  وہ  ذات جس نے ہمیں عزت و شرف عطا  کیا، اور ہمیں وصایت کے لئے منتخب کیا، اور شفاعت کا وعدہ کیا ۔۔۔مالکوں کا علم عطا کیا، اور لوگوں کے دل ہماری طرف جھکا دیئے۔ مجھے میرے بھائیوں اور میرے بابا حسین کے زائروں کو معاف کر دے۔ جنہوں نے اپنے مال ہماری راہ میں خرچ کئے اور اپنے بدن پر ہماری محبت میں سختیاں برداشت کیں۔ اس امید میں کہ تیرے نزدیک ہماری بناء پر معظیم ثواب ہے۔ اور انہوں نے تیرے نبی کے دل کو خوش کیا ہے۔ اور ہمارے حکم پر لبیک کہا ہے اور ہمارے دشمنوں کو جلایا ہے اور اس سے وہ تیری رضا چاہتے ہیں، پاس اے پروردگار تو ہماری بناء پر انکے عمل سے راضی ہو جا اور شب و روز کی خبر گیری فرما۔ پروردگارا ان لوگوں نے اپنے اہل و عیال کو چھوڑا ہے انہیں بہترین حالات میں قرار فرما۔ اور ہر ستم گر کے ستم سے انکی حفاظت فرما اور ان کا ساتھ دے، اور اپنی ہر قوی اور ضعیف مخلوق سے انکو محفوظ فرما اور پروردگار اپنے وطن سے جن خواہشات کو لے کر آئے ہیں انہیں بر آور فرما، اسی بناء پر کہ انہوں نے اپنی اولاد اپنے جسموں اور اپنے رشتہ داروں سے دور اور اپنی ازواج پر ہمیں ترجیح دیا ہے اور ایثار کیا ہے۔

 پروردگار ہمارے دشمن انکے گھروں سے نکلے (یعنی زیارت ) پر طعنہ دینے ہیں اور عیب لگاتے ہیں پھر بھی انہیں کوئی چیز ہمارے پاس آنے سے روک نہیں سکتی ہے۔ ان لوگوں کے بر خلاف جو ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ پس اے اللہ تو ان چہروں پر رحم کر جنہیں سورج کی تپش نے بدل دیا ہے، اور ان رخساروں پر رحم فرما جو امام حسین علیہ السلام کی قبر پر ملتے ہیں، اور ان آنکھوں پر رحم فرما جو ہمارے غم میں رحمت کی بناء پر روتی ہیں۔ اور ان دلوں پر رحم فرما جو ہمارے لئے تڑپنے اور بے چین ہوتے ہیں۔ اور ان چیزوں پر رحم فرما جو ہمارے لئے بلند ہوتی ہیں۔ 

پروردگار میں ان لوگوں کو ان کے جسموں کو تیرے حوالے چھوڑتا ہوں یہاں تک کہ تو حوض کوثر پر انہیں ہمارے پاس اس دن پہونچا دے جو دن شدید پیاس کا دن ہو گا۔ 

امام مسلسل سجدہ کی حالت میں الله سے یہ دعا کر رہے تھے اور جب امام دعا سے فارغ ہو گئے تو میں نے کہا: میری جان آپ پر قربان ہو جائے ، یہ دعا جو میں نے آپ سے سنی ہے اگر وہ ایسے شخص کے لئے ہو جو الله کو نہیں پہچانتا ہے تب بھی مجھے یقین ہو جاتا کہ جہنم کی آگ اسے مس کبھی نہیں کر سکتی تھی۔ 

اور خدا کی قسم میں آرزو اور تمنا کرتا ہوں کہ اے کاش میں نے زیارت کیا ہوتا اور  حج نہ کیا ہوتا ( یہاں حج سے مراد واجب نہیں ہے) کہ امام نے مجھ سے کہا: میں نے تمہیں اس سے قریب کر دیا، کیا چیز تمہیں زیارت سے روکتی ہے؟ پھر کہا: اے معاویہ، زیارت کو ترک نہ کرو۔ میں نے کہا مجھے اس سلسلے میں اتنا معلوم نہیں تھا۔ امام نے کہا: اے معاویہ ، امام حسین علیہ السلام کے زائروں کے لئے زمین سے زیادہ آسمان میں دعا کرنے والے ہیں ، تم چاہتے ہو کہ اللہ تمہاری ذات کو ان لوگوں میں قرار دے جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی و فاطمہ علیہما السّلام اور تمام ائمہ علیہم السلام دعا کرتے ہیں؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم ان لوگوں میں قرار پاؤ جو اس دنیا سے گذشتہ تمام گناہ سے معاف ہو کر ستر سال کا گناہ معاف کرا کے رخصت ہوئے ہیں؟ کیا تم نہیں چاہتے کہ کل تم ان لوگوں میں قرار پاؤ جو ملائکہ سے مصافحہ کرتے ہیں؟ اور کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ کل جب تم اس دنیا سے جاؤ تو تمہارے کاندھے پر کوئی گناہ تمہارا پیچھا نہ کر رہا ہو؟ کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ کل تم ان لوگوں میں قرار پا جو اللہ کے رسول سے مصافحہ کریں گے؟ 

(وسائل، ج ۱۰، ص ۳۲۰) 

اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد مرحوم در بندری کہتے ہیں گریہ و زاری اور زیارت کے بارے میں جو حدیتیں میں نے نقل کیا ہے وہ ایک مشت از خروار گندم ہے اگر معاویہ ابن وہب کی حدیث کے علاوہ اگر اور حدیث نہ ہوتی تو بھی ہمارے لئے یہ حدیث کا فی ہوتی۔

امام حسین علیہ السلام میں قرآنی صفات – ۱

مذہب امامیہ کا ایک بنیادی اصول ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ اور جانشین وہی ہو سکتا ہے جو سہو ونسیان اور گناہ و معصیت سے بالکل محفوظ ہو اور معصوم عن الخطا ہو ، اس لئے کہ جانشین پیغمبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کردہ دین و شریت کا گراں اور محافظ ہوتا ہے ، امام اور خلیفہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت میں اسلام و شریعت کے قوانین و اصول اور احکام کا بیان کرنے والا اور بوقت ضرورت ان کی تشریح کرنے والا ہوتا ہے لہٰذا جس طرح خداوند عالم نے اسلام و قرآن کو ہر کس و ناکس کے توسط سے لوگوں کی نہیں پہونچایا کہ لوگ اس میں اپنی خواہش نفس سے تبدیلیاں کر ڈالتے اس کی شکل و صورت محو کر ڈالئے اسی طرح خداوند عالم کے عین منشا اور حکمت کا تقاضہ تھا کہ یہ شریعت و قرآن سے قیامت تک باقی رہتا ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر محض تیر ساٹھ (۶۳) سال ہے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قیامت تک اس دین و شریعت کو اس کی اصل شکل و صورت میں باقی رکھنے کے لئے کسی ایسے ہی ماند و نگراں کے دست زبردست کی ضرورت ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح معصوم عن الخطا و گناه و معصیت سے پاک ہو خواہش نفس سے کلام نہ کرتا ہو حالات کے نشیب و فراز کا اسیر نہ ہوا ہو وہ جب ان خصوصیتوں کا حامل ہو گیا تو لوگ اس پر اعتماد کر ینگے اس کی اطاعت و فرماں برداری کریں گے ورنہ دین کا ذمہ دار ہمارے ہی میں کوئی عام انسان بن جائے گا تو کون اس کی ضمانت دے گا کہ وہ مسلمان کی ہدایت و خیر خواہی میں حالات زمانہ کی سیاستوں کا شکار نہیں ہے۔ پیام دین کی نشر واشاعت یا تشریح دین میں خواہش نفس اور ہوس اقتدار و شہرت کا دلدادہ نہیں ہے جیسا کہ آج کوئی بھی صاحب شعور دین کے کسی بھی شعبہ میں مشغول افراد کے حالات سے بے خبر نہیں ہے، اسی لئے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حُکم خداسے اپنے بعد قیامت تک باقی رہنے والے دین کے لئے بارہ معصوم افرادو کو اپنا جانشین منتخب فرمایا اور ان کے لئے متعدد طریقہ سے نص فرمائی تا که دین خدا تحریف اور ہر شخص کی اپنی رائے اور خواہش نفس کا اسیر نہ ہو جائے۔ اور ان معصوم جانشینوں کے سلسلہ کی پہلی کڑی حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور آخری معصوم جانشین امام مہدی علیہ السلام ہیں جو فرمان رسول کے مطابق عدل قرآن اور امت مسلمہ کے درمیان گراں قدر امانت ہیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث معروف ثقلین میں قرآن و عترت کو ایک ساتھ رہنے اور ان کے ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کی خبر دی ہے۔ قرآن  معجیزئے پیغمبر ہے، عترت آل پیغمبر ہیں، قرآن میں جو کچھ ہے عترت پیغمبر اس کا مکمل نمونہ ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن عترت رسول کا تعارف کراتا ہے اور عترت اصل اور مکمل قرآن کی ترجمانی فرماتے ہیں کلام خدا قرآن صامت ہے عترت پیامبر قرآن ناطق ہیں اور عترت رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارہ معصوم جانشین سے عبارت ہیں جس سلسلہ کی تیسری کڑی حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی عظیم قربانی دیگر دین اسلام کو یزید پلید اور اس کے بعد آنے والے یزید صفت لوگوں کے ناپاک ارادوں سے قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا، امام حسین علیہ السلام اور قرآن فرمان رسول کے مطابق ہدایت و ارشاد کا محور و مرکز ہیں، حسین بن علی علیہ السلام کے اوصاف قرآن میں اور قرآن کے صفات امام حسین علیہ السلام میں ملیں گے اور انہیں خصوصیتوں اور مناسبتوں کی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں آیئے دیکھیں امام حسین اور قرآن مجید ایک دوسرے کی کس طرح آئینہ داری کرتے ہیں ۔ یہاں پر مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ منہ دیکھتا ہے آئینہ آئینہ ساز کا 

امام حسین علیہ السلام کا وجود مبارک کلام خدا کے وجود کے مانند ہے کلام خدا قرآن صامت ہے امام حسین  علیہ السلام قرآن ناطق ہیں۔ 

دونوں امت کے در میان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانتیں ہیں لیکن امانت کے طور سے دونوں کو امت کے سپرد کرنے میں رسول اللہ نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ خاص اہتمام فرمایا کہ انھیں بالائے منبر لے جا کر فرمایا 

اے لوگوں! یہ حسین بن علی (علیہ السلام) ہیں انہیں خوب پہچان لو اور تمام لوگوں پر انہیں مقدم کرو۔ 

(بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۶۲؛ امالى صدوق مجلس ۸۷، ص۴۷۸؛ متب طریحی ، ج ۱، ص ۱۱۷) 

اس کے بعد فرمایا : 

اے اللہ ! میں اسے تیرے سپرد کرتا ہوں اور جو امت کے نیک افراد ہیں ان کے حوالے کرتا ہوں۔ 

(بحار الانوار، ج۴۵، ص۱۱۸، مثیر الاحزان، ص ۷۲ ؛ امالی طوسی، ج ۱، ص ۲۵۸)

امام حسین علیہ السلام تمام صفات میں قرآن کے ساتھ ہیں

جملہ صفات، خصوصیات، اور فضائل میں سید الشہداء حضرت امام حسین بن علی علیہ السلام قرآن کے ساتھ شریک ہیں۔ 

ا۔ قرآن لوگوں کے لئے ہدایت، خاتم الانبیاء کا معجزہ اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کا ذریعہ ہے۔ اور امام حسین علیہ السلام ایمان کی طرف لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور حق و باطل کے راستہ میں امتیاز پید اکرنے کا ذریعہ ہیں۔ 

( بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۰۵؛ کمال الدین، ج ۱، ص ۲۶۵) 

۲۔ قرآن کا نزول شب قدر میں ہوا *……….. اور امام حسین علیہ السلام کی شب ولادت شب قدر کے مانند ہے جب ملائکہ امر پروردگار سے آسمان سے نازل ہو رہے تھے، اور روح الامین جناب جبرئیل خدائے متعال کی جانب سے تہنیت پیش کرنے گروہ ملائکہ کے ساتھ خانہ وحی میں اتر رہے تھے۔ 

(بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۲۴۳؛ امالى صدوق، مجلس ۲۸، ص ۱۱۸)

۳ ۔ قرآن مجید روز قیامت ان لوگوں کی شفاعت کریگا جو اس کی مسلسل اور پابندی کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام بھی اپنے زائر اور مصائب پر گریہ کرنے والوں کی شفاعت فرمائیں گے۔ 

(بحار الانوار، ج ۴۴، ص ۲۸۱؛ امالی شیخ طوسی ج ۱، ص ۵۴) 

۴- قرآن مجید فصاحت و بلاغت اور اپنے معالى اسلوب میں معجزہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا سراپا وجود ( سر، بدن، خون بلکہ تربت کربلا) معجزہ اور کرامت ہی کرامت ہے جیسا کہ دنیا کے گوشه و کنار میں ان سے نسبت رکھنے والی چیزوں سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ 

۵۔ قرآن کی تازگی دائمی ہے جسے بار بار تلاوت کرنے سے اس میں مال اور خستگی کے آثار نمایاں نہیں ہوتے ہیں ۔ امام حسین علیہ السلام کا تذکرہ اور آپ کے مصائب کا بیان بھی ہمیشہ زنده تازہ رہتا ہے اور بیان کرنے والے یا سنے والے کا دل کبھی اس سے اچاٹ نہیں ہو تا ہے۔ 

۶۔ قرآن کریم کی تلاوت عبادت ہے، اسے سننا عبادت ہے، اس کی طرف نظر کرنا عبادت ہے، امام حسین علیہ السلام کے لئے نوحہ و مرثیہ پڑھنا عبادت ، اس کا سنا عبادت، مجلس عزا میں بیٹھنا گریہ کرنا، اور دوسروں کو آپ کے مصائب میں رولانان، آپ پر گریہ کرنے والوں کے مانند گریہ کرنے کی کوشش کرنا سب عبادت ہے۔ 

( بحار الانوار، ج۴۴، ص ۲۸۹؛ کامل الزیارات، باب ۳۳، ص۱۰۶)

۷ ۔ قرآن کے بارے میں مسلمانوں پر واجب ہے اس کا احترام کریں، اس کی بے حرمتی نہ کریں، بغیر طہارت کے اسے مس نہ کریں، اسے بيع و شراء کی منزل میں قرار نہ دیں۔ امام حسین علیہ السلام کے لئے بھی علم خدا و رسول کے مطابق مسلمانوں پر واجب ہے ان کا احترام کریں اور ان کی بے حرمتی نہ کریں مگر مسلمانوں نے اس حکم کا خیال نہیں کیا ان کی بے حرمتی کی۔ انہیں خاک و خون میں آلودہ کیا، اپنے دین کا ان کے قتل سے معاملہ کر لیا جس کے عوض چند درہم مل گئے اور شہر رئی کی حکومت کی لالچ میں جو نصیب بھی نہیں ہوئی اتنے عظیم گناہ و کفر کا ارتکاب کیا۔ 

(بحار الانوار، ج۴۴، ص ۳۸۴، مقتل خوارزمی، ج ۱، ص ۲۳۹) 

امام حسین علیہ السلام اور سورہ حمد کی خصوصیتیں 

سوره حمد کے لئے جو جو خصوصیتیں ذکر ہوئی ہیں وہ امام حسین علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ہیں آیئے دیکھیں اور غور کریں : 

ا۔ سوره حمد کو ام الکتاب کہا گیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام بھی ابو الا ائمہ ہیں۔ 

(بحار الانوار، ج ۳۴، ص۲۹۵؛ مناقب شہر آشوب، ج۳، ص ۲۶۷) 

۲۔   سوره حمد کنز اطاعت ہے۔ امام حسین علیہ السلام اسباب شفاعت ہیں۔

(بحار الانوار، ج۴۴، ص ۲۴۲ منتخب طرحی، ج ۱، ص ۴۸)

 سوره حمد وافیہ (وفا اور ادا کرنا ) امام حسین علیہ السلام بھی اسباب  مغفرت کو پورا کرنے والے ہیں۔ ۳-

۴۔ سوره حمد شافی (شفا عطا کرنے والی) امام حسین علیہ السلام کی تربت خاک شفا ہے۔ 

(بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۲۱؛ امالی طوسی ،ج۱، ۳۲۴-۳۲۵) 

۵۔  سورہ حمد کو کافیہ (کفایت کرنے والی) کہا ہے امام حسین علیہ السلام کی محبت بھی کافی ہے۔ 

 سورة حمد عدل قرآن ہے ، امام حسین علیہ السلام  شریک قرآن اور معادل قرآن ہیں ( حدیث ثقلین) ہے۔ ۶-

۷-  سورہ حمد میں سات آیتیں ہیں اور دو دفعہ نازل ہوئی اس لئے اسے سبع المثانی کہتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کے لئے بھی یہ خصوصیت ثابت ہے کہ آپ آسمان سے دو مرتبہ نازل ہوئے اور دو مرتبہ عروج فرمایا۔ جب آپ کی ولادت ہوئی تب آپ کی روح نازل ہوئی اور وقت شہادت روح بلند ہوئی به طرف آسمان جسطرح بقیہ ائمہ و انبیاء علیہم السلام کے لئے ہوا۔ اور امام حسین ایران کے جسم مطہر کو آسان کی طرف لے جایا گیا اور پھر دوبارہ اتارا گیا۔ یہ خصوصیت صرف آپ کی ذات اقدس سے مخصوص رہی۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ جب یزیدیوں نے آپ کو شہید کر دیا۔ اور سر مبارک کو نیزہ پر بلند کر کے کوفہ کی جانب لے جایا گیا تو ملائکہ نازل ہوئے اور آپ کے جسم مطہر کو اسی حالت میں پانچویں آسمان پر لے گئے اور جس مقام پر حضرت علی علیہ السلام کی تصویر (شبیہ) رکھی تھی اسی کے ساتھ ملا کر رکھ دیا اور جب تمام آسمان والوں نے ان کے خون آلودہ جسم کی طرف نگاہ کیا تو ان کے قاتل پر لعنت کرنے لگے اس کے بعد آپ کے جسم نازنین کو دوبارہ اسی مقام پر زمین کربلا میں رکھ دیا۔ 

(بحار الانوار، ج۴۵، ص ۲۲۹، کتاب المختصر ،ص ۱۲۶-۱۲۷) 

 ۸- سورہ حمد کے ظاہر و باطن پر ایمان رکھتے ہوئے اگر اس کی کوئی تلاوت کرے تو خداوند عالم اسے ایسی نیکی عطا فرماتا ہے جو تمام دنیا سے افضل ہے۔ 

(بحار الانوار، ج۸۹، ص ۲۲۷؛ مجمع البیان، ج ۱، ص ۱۸؛ عیون الاخبار، ج ۱, ص ۳۰۲)

امام حسین علیہ السلام کا ذکر کرنے والے اور ان پر گریہ کرنے والے کو خداوند منان اسے ہر آنسو کے عوض ایسی نیکی عطا فرماتا ہے جو دنیا وما فیھا سے افضل ہے، اور جو ان کی زیارت کر تا ہے خداوند عالم اسے ہر حرف کے بدلے ایسی نیکی دیتا ہے جو تمام دنیا سے بہتر ہے۔ 

(کامل الزیارات اور ثواب گریہ سے متعلق کتاب کی طرف رجوع فرمائیں) 

آخر میں امید رکھتا ہوں کہ ہر وہ مسلمان جو قرآن پر ایمان و عقیده رکھتا ہے اور اپنے نبی کا اتباع کرتا ہے، اس کے لئے اتنی باتیں معرفت حسین علیہ السلام کے ضمن میں دعوت فکر و عمل کا باعث ہوں گی اور مزید تشویق اور توفیقی کے لئے ہر مومن قرآن کی آیت کریمہ میں امام حسین علیہ السلام کی سیرت کا مشاہد ہوگا۔ 

الله تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم فرما! قرآن و عترت پیغمبر کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق عنایت فرما! وارث حسین علیہ السلام حضرت امام عصر علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما ان کے جاں نثاروں میں شمار فرما۔